بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بلوچستان :سیلابی تباہ کاریاں، امداد و بحالی کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں، نیلوفر آفریدی قاضی

اسلام آباد(انٹرویو:فیصل اظفر علوی/عکاسی: سید جنید گردیزی)بلوچستان میں ہونےوالی سیلابی تباہ کاریوں کے نقصانات کی نسبت امداد اور بحالی کے کام نہ ہونے کے برابر ہیں،ان خیالات کا اظہار معروف سماجی کارکن، مصنفہ اور پالیسی ایکسپرٹ نیلوفر آفریدی قاضی نے روزنامہ ممتاز کو خصوصی انٹرویو دیتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں انسانی ترقی دیگر 4 صوبوں کی نسبت نہ ہونے کے برابر ہےحالانکہ بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا 44 فیصد حصہ بنتا ہے۔ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو آبادی کم ہونے کی وجہ سے بلوچستان کو سنگاپور کی طرح ترقی یافتہ اور معاشی گڑھ ہونا چاہئے۔ بلوچستان کے لوگوں کو انہی کے وسائل سے محروم رکھا گیا اوریہ ایک تاریخی مسئلہ ہے۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے عموماََاسلام آباد، لاہور، کراچی جیسے تین چار بڑے شہروں کو ہی پاکستان سمجھا جاتا ہے۔ ہماری نوجوان نسل بلکہ بزرگوں کو بھی یہ تک نہیں معلوم کہ بلوچستان میں شہر کتنے ہیں؟ بلوچستان جانا تو بہت دور کی بات ہے۔ بلوچستان کے حوالے سے حالات اتنے خراب ہیں کہ ہم میڈیا پر بات بھی نہیں کر سکتے۔ ان کا کہناتھا کہ یہ پہلا موقع ہے جب پاکستان کو کسی قدرتی آفت کا سامنا کرنا پڑا ہے اور میں کسی ادارے کی سپورٹ کے بغیر تن تنہا کام کر رہی ہوں۔ اس مرتبہ سیلاب کی تباہ کاریوں کی نسبت ہمیں حکومت، عوام اور اقوام عالم سے امداد بہت کم ملی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ تین کروڑ سے زائد سیلاب متاثرین کی 90 فیصد آبادی ایسے علاقوں سے تعلق رکھتی ہے جو انتہائی پسماندہ اور دور دراز واقع ہیں۔ایسے علاقوں میں رسائی بہت مشکل کام ہے لیکن بلوچستان کی بیٹی ہونے کے ناطے میں خاموش نہیں رہ سکتی تھی۔اسی وجہ سے میںنے ایک مربوط اور منظم حکمت عملی کے تحت مکمل یکسوئی کے ساتھ بلوچستان میں بحالی اور امدادی کاموں پر توجہ مرکوز کی ہوئی ہے۔ان کا کہنا تھا کہ اگر سیلاب سے متاثرہ خاندانوںکے پاس نقل مکانی کے اسباب ہوتے تو وہ لازماََ خود کو محفوظ رکھنے کیلئے یہ قدم اٹھاتے۔ ہم نے ان سے اسباب و وسائل چھین کر ان کو معذور بنایا ہے۔ ہم اپنے بجٹ کا بڑا حصہ کس چیز پر خرچ کرتے ہیں یہ سب کو معلوم ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان سمیت پورے ملک میں لڑکیوں کو تعلیم کے حوالے سے کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خواتین کو اپنے قدموں پر کھڑا ہونے کیلئے ماحول میسر نہیں۔ اس حوالے سے بھی ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ہمیں دنیا کے ساتھ چلنا چاہئے۔ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ مجھے کھانوں کا بہت شوق ہے اور اسی شوق کو مد نظر رکھتے ہوئے میں نے بلوچستان کا اقوام عالم میں ایک مثبت چہرہ دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس حوالے سے میری کتاب Culinary Tales from Balochistan کو پاکستان سمیت دنیا بھر میں خاصی پذیرائی ملی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں پاکستان کے ایک سو سے زائد اضلاع میں گھوم چکی ہوںاور میری خواہش ہے کہ میں وطن عزیز کے پوشیدہ پہلو سامنے لائوں ۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ میری حکومت پاکستان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے شہریوں پر ہی خرچہ کریں، ان پر انوسیٹمنٹ کریں کیوں کہ پاکستان کے شہری ہی پاکستان کا سب سے بڑا اثاثہ ہیں۔ لڑکیوں کو پڑھنے اور آگے بڑھنے کے مواقع فراہم کرتے ہوئے ان کی خواہشات کو کچلا نہ جائے۔