پشاور(نیوزڈیسک)سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کو گیارہ سال گزر چکے ہیں مگر اس المناک واقعے کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں 16 دسمبر کو ہمیشہ ایک سیاہ دن کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔ یہ ایک ایسا قومی سانحہ تھا جس نے ہر پاکستانی کے دل کو زخمی کر دیا۔
سال 2014 میں آرمی پبلک سکول پشاور میں معصوم بچوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا کر پاکستان کو گہری چوٹ پہنچائی گئی۔ 16 دسمبر 2014 کو چھ مسلح دہشت گرد آرمی پبلک سکول پشاور میں داخل ہوئے اور جدید اسلحے سے لیس امن دشمنوں نے نہتے بچوں اور اساتذہ کو نشانہ بنایا۔ انسانیت کے لفظ سے نا آشنا افراد نے 132 بچوں سمیت 149 افراد کو شہید کر دیا۔
آرمی پبلک سکول کی پرنسپل طاہرہ قاضی کی فرض شناسی برسوں یاد رکھی جائے گی، جنہوں نے اپنی جان قربان کر دی مگر دہشت گردوں اور بچوں کے درمیان دیوار بن کر کھڑی رہیں۔ تحریک طالبان پاکستان نے اے پی ایس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے اسے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضربِ عضب کا انتقامی ردعمل قرار دیا۔ دہشت گردوں کو افغانستان میں تربیت دی گئی تھی اور اسلحہ و بارود بھی افغانستان سے لایا گیا تھا۔
دلوں کو دہلا دینے والے اس سانحے نے ہر آنکھ کو اشک بار کر دیا اور پوری قوم کو بلا کسی مذہبی و سیاسی تفریق کے یکجا کر دیا۔ خیبر سے کراچی تک پورا پاکستان معصوم شہداء کے غم میں سوگوار تھا۔ بزدل دہشت گردوں نے سکول پر حملہ کر کے علم کی شمع بجھانے اور مستقبل کے معماروں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی مگر قوم کے حوصلے پست نہ کر سکے۔









