بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

نئے جاوید اقبال کی تلاش!

ابھی صدر علوی کی طرف سے پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کی تاریخ دینے کے دھماکہ خیز اعلان کی گونج نہیں تھمی کہ نیب کے چیئرمین آفتاب سلطان کے اپنی تعینات کے صرف سات ماہ بعد ہی مستعفی ہونے کی خبر نے ملک کی پیچیدہ صورتحال میں ایک اور بھونچال پیدا کر دیا ہے ۔ انہوں نے کسی لگی لپٹی کے بغیر کہا ہے کہ وہ نیب میں دیگر اداروں کی مداخلت برداشت نہیں کر سکتے تھے۔آفتاب سلطان کے متعلق پہلے دن سے کہا جارہا تھا کہ اگر انہیں دباؤمیں لا کر جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی طرح استعمال کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ ایسا کرنے والوں کو سخت مایوسی ہو گی۔ پولیس سروس سے تعلق رکھنے والے انٹیلی جنس بیورو کے سابق ڈائریکٹر جنرل آفتاب سلطان کو جسٹس جاوید اقبال کی مدت ملازمت ختم ہونے کے چند ہفتوں بعد وزیراعظم شہبازشریف نے 21جولائی 2022 کو تین سال کے لئے چیئرمین نیب تعینات کیا تھا۔سابق چیئرمین جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی مدت ملازمت ختم ہونے کے باوجود سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت میں ان کی مدت ملازمت میں ایک صدارتی آرڈیننس کے ذریعے توسیع دی گئی ۔جسٹس جاوید کی مدت ملازمت ختم ہونے کے بعد عمران خان قومی اسمبلی میں اس وقت کے قائد حزب اختلاف شہبازشریف سے نئے چیئرمین نیب کی تعیناتی کے متعلق مشاورت پر رضا مند نہیں ہوئے تھے جس کے بعد ان کی ملازمت میں توسیع کے لئے آرڈیننس لایا گیا۔پاکستان تحریک انصاف کے د ور میں اس تاثر کو تقویت ملتی رہی کہ نیب حکومتی ایما پر حزب اختلاف کی جماعتوں کے قائدین کے خلاف مقدمات درج کر کے کارروائیاں کر رہاہے اس عرصے کے دوران موجودہ وزیراعظم میاں شہبازشریف ، سابق صدر آصف علی زرداری ، سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی،وفاقی وزراءخورشید شاہ ، خواجہ سعد رفیق ، خواجہ محمد آصف اور دیگر رہنماؤں کے خلاف مقدمات درج کئے گئے اور انہیں پابند سلاسل رکھا گیا لیکن ان مقدمات میں نیب ایک پیسے کی ریکوری بھی نہیں کر سکا۔ نیب کی اسی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ نے خواجہ سعد رفیق کی ضمانت منظور کرتے ہوئے اپنے حکم نامے میں لکھا تھا کہ نیب جیسے ادارے کو سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنے کے لئے استعمال کیا جارہاہے ۔عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد نئی اتحادی حکومت کی طرف سے جاوید اقبال کو گھر جانے کا پیغام بھیجا گیا۔ آفتاب سلطان کا پورا کیریئر انتہائی آزاد دیانتدار اور شفاف کردار کے حامل پولیس آفیسر کے طور پر گزرا ،ان کے متعلق مشہور ہے کہ انہوں نے ڈی جی انٹیلی جنس بیورو سمیت کسی بھی عہدے پر رہتے ہوئے کسی کی سفارش یا دباؤ قبول نہیں کیا۔ چیئرمین نیب کے عہدے کے لئے ماضی میں جن افراد کا چناؤ کیا گیا ان پر آٰئین اور قانون کی ہر طرح سے پامالی کرنے کے الزامات لگتے رہے ۔ان میں سے اکثر کا انتخاب اقرابا پروری ، ذاتی پسند اور قریبی رفقاءکو نوازنے کی پالیسی کے تحت ہوا ۔ آفتاب سلطان قمر زمان چوہدری کے بعد دوسرے بیوروکریٹ تھے جنہیں اس عہدے پر تعینات کیا گیا ۔ نیب کی تاریخ میں زیادہ تر چیئرمین ریٹائرڈ جنرل یا عدلیہ کے ریٹائرڈ ججز بنے جن کے ہاتھوں سیاستدانوں کے ساتھ ساتھ کاروباری شخصیات اور بیوروکریٹس کا خوب احتساب ہواجس کی داستانیں تاریخ کا حصہ ہیں۔ مستعفی ہونے والے چیئرمین نیب اپنے کیریئر کے دوران مختلف تنازعات کا بھی شکار رہے اور انہوں نے 2002میں پرویز مشرف
دور میں ہونے والے ریفرنڈم میں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ووٹ ڈالنے کا کہنے کے احکامات پر عمل کرنے سے انکار کر دیا تھا جب وہ سرگودھا میں ڈی آئی جی کے عہدے پر تعینات تھے اور جب ریفرنڈم کا نتیجہ آیا تو سرگودھا ان چند شہروں میں سے ایک تھا جہاں ٹرن آؤٹ دیگر شہروں کے مقابلے میں انتہائی کم رہا۔ 2008میں پاکستان پیپلزپارٹی اقتدار میں آنے کے بعد وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے انہیں ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو کے عہدے پر تعینات کیا ۔ 2013کے عام انتخابات کے وقت انہیں پنجاب کا آئی جی پولیس بنایا گیا ، پھر مسلم لیگ (ن) کے اقتدار میں آنے کے بعد انہیں دوبارہ ڈی جی آئی بی کے عہدے پر فائز کر دیا۔ اس طرح انہوں نے جہاں دو مختلف جماعتوں سے تعلق رکھنے والے وزرائے اعظم کی طرف سے ایک اہم ترین عہدے کے لئے بہترین انتخاب بننے کا اعزاز حاصل کیا وہیں وہ ماضی میں سابق وزیراعظم عمران خان کی براہ راست تنقید کا نشانہ بھی بنے اور پھر عمران دور میں نیب نے 2020میں آفتاب سلطان کے خلاف اختیارات اور بدعنوانی کے الزام میں ایک ریفرنس کی منظوری بھی دی مگر بعد ازاں نیب نے یہ ریفرنس واپس لے لیا۔2014میں عمران خان نے ان پر صحافیوں اور اینکرز میں رقوم تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا تھا ، پھر 2018میں انہوں نے الزام لگایا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے آئی بی کو انتخابات کے لئے امیدواروں کے چناؤں کا کام سونپا ہے، جس کی آفتاب سلطان نے بطور ڈی جی آئی بی تردید کی تھی۔2014میں پارلیمنٹ کے سامنے ڈی چوک میں پی ٹی آئی کے 126دن کے دھرنے کے دوران انتہائی اہم ٹیلیفونک گفتگو ٹیپ کرنے کے الزامات بھی سامنے آئے۔تاہم اس وقت کے ڈی جی آئی ایس پی آر نے آڈیو ریکارڈنگ سے متعلق خبروں کو بے بنیاد قرار دیا تھا۔ آفتاب سلطان نے نجی ٹی وی سے گفتگو کے دوران اپنے استعفے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کچھ چیزیں کرنے کے لئے کہا گیا تھا جو ان کے لئے ناقابل قبول تھیں۔اس سے پہلے نیب کے افسران سے الوداعی خطاب میں انہوںنے کہاکہ میں کسی کے خلاف جھوٹا مقدمہ نہیں کر سکتا اور نہ ہی کسی ریفرنس کو اس لئے فارغ کر سکتا ہوں کہ ملزم کسی بااثر شخصیت کا رشتہ دار ہے ۔ انہوں نے اس ا مر پر خوشی اور اطمینان کا اظہار کیا کہ وہ اصولوں پر قائم رہے اور کسی کے دباؤ میں نہیں آئے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے اپنی پیشہ وارانہ زندگی میں قانون کے مطابق کام کرنے کی کوشش کی اور کبھی اپنے اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک پلاٹ والے کے لئے کہا جاتا ہے کہ اسے اندر کر دیں جبکہ اربوں والے باہر ہیں، ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میں نہ کچھ لیکر آیا تھا اور نہ کچھ لے کر جارہاہوں ۔ کچھ عرصہ سے اطلاعات آرہی تھیں کہ آفتاب سلطان پر بعض معاملات سے متعلق دباؤ ڈالا جارہاہے لیکن وہ کسی قسم کا دباؤ قبول کرنے ، کوئی غلط مقدمہ تیار کرنے اور کسی زیر التوا انکوائری کو ختم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ان کے مختصر دور میں ہر انکوائری اور شکایت کو میرٹ کے مطابق جانچا گیا اور صرف ٹھوس شواہد کے حامل کیسوں پر ہی کارروائی شروع کی گئی۔ان کے دور میں انٹیلی جنس بیورو کو جدید انٹیلی جنس ٹیکنالوجی کا حامل ادارہ بنایاگیا اور انہوں نے نیب کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنانے والے ادارے کے بجائے احتساب کا موثر ادارے بنانے کی کوشش کی لیکن ادارے میں اصلاحات کے لئے مطلوبہ حمایت کا فقدان بھی رہا ۔اب نئے چیئرمین نیب کے تقرر کے لئے حکومتی سطح پر مشاورت شروع ہو گئی ہے اور بیوروکریٹس سمیت بعض شخصیات کے نام بھی میڈیا پر لئے جارہے ہیں لیکن یہ سوالات بھی گردش کررہے ہیں کہ کیاحکومت کو اس وقت کسی نئے جاوید اقبال کی تلاش تو نہیں ؟۔