بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ عدالتی کارروائی براہ راست نشر! چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے کس کو کیا پیغام دیا؟ تجزیہ

اسلام آباد(طارق محمود سمیر) سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی قائز عیسیٰ نے نئی روایات قائم کرتے ہوئے نہ صرف فل کورٹ فوری طور پر تشکیل دی بلکہ عدالتی کارروائی براہ راست عوام تک پہنچا کر عوام سمیت تمام متعلقہ فریقین کو واضح پیغام دیا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق چلائی جائے گی ،کسی کی ذاتی پسند نہ پسند اور انا آڑے نہیں آئے گی اور نہ ہی ماضی کے بعض چیف جسٹس صاحبان کی طرح صرف مخصوص بینچ تشکیل دے کر ایسے متنازعہ فیصلے کئے جائیں گے جن کو عدالتی تاریخ میں مثال کے طور پر پیش بھی نہ کیا جا سکے۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ جن مراحل سے گزرکر اس عہدے تک پہنچے ہیں اس کی بھی ایک تاریخ ہے ، جب انہیں بلوچستان ہائیکورٹ کا چیف جسٹس مقررکیا گیا تو اس وقت پوری ہائیکورٹ پی سی او ججز کیخلاف سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے فیصلے کے بعد خالی ہوچکی تھی اور اس وقت کے قائم مقام گورنر اسلم بھوتانی نے سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کی تجویز پر فائز عیسیٰ کو براہ راست چیف جسٹس ہائیکورٹ مقررکیا جو ایک نئی مثال تھی اور اس کی وجہ یہی بیان کی گئی تھی کہ پوری ہائیکورٹ میںکوئی جج نہیں تھا اس لئے ایسا کرنا پڑا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو ہٹانے کیلئے سابق اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان نے جو کردار ادا کیا وہ بھی قوم کے سامنے آچکا ہے اور جس صدر نے ریفرنس دائر کیا تھا اسی صدر نے نئے چیف جسٹس سے حلف لیا ،فل کورٹ سماعت 2019کے بعد نہیں ہوئی تھی کیونکہ سابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک مخصوص ایجنڈے پر عمل پیرا تھے اور وہ تمام ججزکو اعتماد میں لئے بغیر فیصلے کرتے تھے ،آئینی اور قانونی معاملات پرکبھی تین رکنی توکبھی پانچ رکنی ایسا بینچ تشکیل دیا جاتا تھا کہ نام سامنے آتے ہی میڈیا میں متوقع فیصلوں کے بارے میں تبصرے آنا شروع ہو جاتے تھے ۔جہاں تک عمر عطا بندیال کا تعلق ہے وہ اب ماضی کا حصہ بن چکے ہیں ،اگر انہوں نے آئین اور قانون پر صحیح معنوں پر عمل کیا ہوتا اور ایک مخصوص سیاسی جماعت کے نظریے اور سوچ سے باہر نکل کر فیصلے کئے ہوتے تو آج وہ فل کورٹ ریفرنس کے بغیر نہ جاتے اور اپنے آخری خطاب میں آبدیدہ بھی نہ ہوتے ، آج بڑے بڑے وکلاء عدالت میں آئے ہوئے تھے اور پوری قوم نے دیکھا کہ وہ کتنی تیاری کر کے آئے تھے ،براہ راست سماعت عوام تک پہنچنے کے بعدکئی تجزیہ نگار یہ کہنے میں حق بجانب ہیں کہ کئی وکلاء بے نقاب ہوچکے ہیں اور کئی وکلاء اگلی سماعت پر بے نقاب ہوں گے کیونکہ جب چیف جسٹس نے خواجہ طارق رحیم سے یہ سوال کیا کہ آپ “میں میں”کی سوچ سے باہر نکلیں ،آئین کی بات کریں ،قانون کی بات کریں ، اس کا کوئی حوالہ اگر آپ کے پاس ہے تو وہ دیں ،آج کی سماعت میں زیادہ تر یہ بحث ہوئی کہ پارلیمنٹ سپریم ہے یا سپریم کورٹ سپریم ہے ، پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حق حاصل ہے اور سپریم کورٹ کو آئین کی تشریح کا حق حاصل ہے ، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے متعدد بار ریکوڈک منصوبے کا حوالہ دیا جس میں ایک سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے ازخود نوٹس لینے کے بعد دیے گئے فیصلے کے نتیجے میں پاکستان کوساڑھے 6 ارب ڈالرکا جرمانہ عائد ہوا ۔سابق چیف جسٹس افتخار چودھری موجودہ چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کے محسن ہیں مگر اس کے باوجود انہوں نے اصول کی بات کی کہ ماضی میں ازخود نوٹس لے کر ایک غلط فیصلہ کیا گیا جس سے پاکستان کو بہت نقصان ہوا۔ اٹارنی جنرل منصور علی خان نے بھی دلائل دیے اور ان سے بھی ججز نے بڑے سخت سوالات کئے جن کا وہ مسکرا کر جواب دیتے رہے ۔