جوہانسبرگ: نوبیل امن انعام یافتہ ملالہ یوسفزئی نے کہا ہےکہ طالبان نے افغانستان میں لڑکی ہونا ہی غیر قانونی بنا دیا ۔
نیلسن منڈیلا کی دسویں برسی کے موقع پرجوہانسبرگ میں خطاب کرتے ہوئے ملالہ یوسفزئی نے کہا کہ 2 سال پہلے تک افغانستان میں عورتیں کام کرتی تھیں، وزارتوں پر بھی فائز تھیں، کرکٹ اور فٹبال کھیلتی تھیں، بچیاں اسکول جاتی تھیں، سب کچھ بہترین نہ ہونے کے باوجود پیشرفت ہورہی تھی۔
ملالہ نے کہا کہ طالبان نے قبضہ کرتے ہی خواتین کے حقوق سلب کر لیے ہیں، غلط تصورات کی بنیاد پر لڑکیوں کو اعلیٰ تعلیم تک سے روک دیا ہے۔
انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری طالبان حکومت کو نسلی عصبیت کا مرتکب قرار دے۔ دریں اثنانجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ملالہ نے کہاکہ افغانستان میں خواتین کر ہرچیز کے لیے اجازت لیناپڑتی ہے،وہاں بچیاں سکول نہیں جاسکتیں ان کی زندگیوں کو خطرہ لاحق ہے،جو بھی بچی اپنے حق کے لیے آواز اٹھاتی ہے اسے ماردیاجاتا ہے،افغانستا ن میں خواتین کے ساتھ جو کچھ بھی ہورہاہے یہ صنفی عصبیت ہے۔انہوں نے کہاکہ افغان مہاجرین کی جبری بے دخلی ظالمانہ اقدام ہے، ان افغان خاندانوں کے لیے مشکل ہے جنہیں واپس بھیجاجارہاہے،انہوںنے کہاکہ میںجمہوریت کی حامی ہوں،طالبان اقتدار میں رہیں یا نہ رہیں یہ فیصلہ افغان عوام کریں گے۔انہوں نے کہاکہ غزہ میں فوری جنگ بندی ہونی چاہئے،معصوم جانوں کو نشانہ بنانے کا کوئی جوازفراہم نہیں کیا جاسکتا۔
طالبان نے افغانستان میں لڑکی ہونا ہی غیرقانونی بنادیا ہے: ملالہ یوسفزئی








