اسلام آباد(طارق محمود سمیر) پی ٹی آئی کی جانب سے مقدمات کی لائیوسٹریمنگ سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش ناکام ہوئی ہے اورسپریم کورٹ نے نیب ترامیم کیس میں مقدمہ براہ راست نشر نہ کرنے سے متعلق تحریری آرڈر جاری کردیا ہے ۔عدالتی آرڈر میں تحریک انصاف کے بانی چیئرمین عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت اورکیس کی لائیو سٹریمنگ نہ کرنے کی وجوہات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔تحریری حکم نامے میںکہا گیا ہے کہ عدالت یہ سمجھتی ہے کہ لائیو سٹریمنگ کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا جاسکتا ہے ، نیب ترامیم کیس کی 53سماعتیں ہوئی ہیں جن میں پٹیشنر عمران خان نے ماضی میںکوئی دلچسپی نہیں لی تھی اور نہ ہی عدالت میں پیش ہوتے تھے ۔سپریم کورٹ کے تحریری حکم نامے میں یہ اہم نقطہ اٹھایا گیا ہے کہ عدالتی کارروائی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہونے کا خدشہ تھا اس لئے براہ راست کوریج دکھانے کی اجازت نہیں دی گئی ، یہ بھی لکھا گیا ہے کہ عمران خان نے ویڈیو لنک پر پیشی کے دوران کیس پر بات نہیں کی ، 8 فروری کے انتخابات اور جیل میں اپنی قیدکی صورتحال پرگفتگو کی جس کا کیس سے کوئی تعلق نہیں تھا ، عمران خان کی اس سے پہلے والی پیشی پرکچھ دیرکیلئے لائیو سٹریمنگ ہوئی تھی اور بعد میں اسے ختم کردیا گیا اور عمران خان کی ایک تصویر سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی جس کی سپریم کورٹ نے انکوائری بھی کرائی تھی اور اس میں تحریک انصاف کا ایک وکیل مبینہ طور پر ملوث پایا گیا تھا ، ویسے دیکھا جائے تو ماضی میں کبھی بھی سپریم کورٹ سے کسی کیس کی براہ راست کوریج کی اجازت نہیں ہوتی تھی، یہ سلسلہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے شروع کرایا ، ذوالفقار علی بھٹو پھانسی کیس سمیت دیگرکئی کیسز کی براہ راست کوریج دکھائی گئی، اس مقصدکیلئے سپریم کورٹ کے دو ججز جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل کمیٹی قائم کی گئی تھی جوکیسز کی لائیو سٹریمنگ کی اجازت دیتی ہے اور اس کمیٹی نے لائیو کوریج کے رولز بھی بنانے تھے ، عمران خان کو اس کیس میں براہ راست نہ دکھانے سے اس تاثر کو تقویت ملی ہے کہ عمران خان کی مقبولیت سے مخالفین خائف ہیں اس لئے اس کی گفتگو عوام تک نہ پہنچ سکے اور تحریک انصاف کے رہنما یہی بات کرتے ہیں لیکن اس کا ایک اور پہلو بھی ہے کہ ماضی میںکیا کسی سزا یافتہ سیاسی قیدی کو براہ راست ٹیلی ویژن پر بات کرنے کی اجازت دی گئی تھی جس کا جواب واضح ہے کبھی بھی نہیں دی گئی بلکہ لاہور اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے ماضی میں ن لیگ کے صدر میاں نوازشریف کی تصویر اور خبر ٹیلی ویژن چینل پر اس بنا پر پابندی عائد کردی تھی کہ وہ سزا یافتہ ہیں اور یہ پابندی اس وقت عائدکی گئی تھی جب نوازشریف نے پی ڈی ایم کی احتجاجی تحریک کے دوران گوجرانوالہ کے جلسے میں لندن سے براہ راست خطاب کرتے ہوئے سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ اور سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننت جنرل (ر)فیض حمید کو 2018کے الیکشن میں دھاندلی کا ذمہ دار قراردیتے ہوئے شدید تنقیدکا نشانہ بنایا تھا اور پیمرا نے ٹی وی چینلزکو عدالتی احکامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کا پابند بنایا تھا۔دوسری جانب شیخ مجیب الرحمان کی عمران خان کے ایکس اکائونٹ سے ویڈیو شیئرکرنے اور فوجی قیادت کو تنقیدکا نشانہ بنانے کے معاملے پر جہاں تحریک انصاف کے بعض رہنما وضاحتیں دے رہے ہیں وہیں اب سابق صدر ڈاکٹر عارف علوی کھل کر میدان میں آگئے ہیں اور انہوں نے حمود الرحمان کمیشن کی رپورٹ پر بات کرنے اور عمران خان کے ایکس اکائونٹ سے ویڈیو اپ لوڈ کو درست عمل قراردیدیا ہے ، ان کا کہنا ہے کہ کبھی کھیلنے کیلئے 9مئی مل جاتا ہے اور اب شیخ مجیب سے متعلق عمران خان کی ٹویٹ مل گئی ہے ، جہاں تک 9مئی کا تعلق ہے تو ڈاکٹر عارف علوی اس وقت صدر مملکت کے عہدے پر فائز تھے اور وہ اس واقعے کو غلط قرار دے چکے ہیں اور اس کی مذمت بھی کرچکے ہیں ، اب ناجانے عمران خان کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں ، اس وقت پی ٹی آئی کے ذمہ دار عہدیداروں میں بیرسٹر گوہر علی خان ، رئوف حسن ، علی محمد خان اور دیگر اس متازعہ ویڈیو سے پارٹی کو دور رکھنا چاہتے ہیں اور وہ کہہ رہے ہیںکہ امریکہ سے سوشل میڈیا کو چلایا جاتا ہے ، ڈاکٹر عارف علوی نے جو بات کی ہے انہیں چاہیے تھا کہ جب وہ صدر تھے یا چار سال تک تحریک انصاف کی حکومت تھی حمود الرحمان کمیشن کی پوری رپورٹ جاری کرادیتے ، اسی معاملے میں ایف آئی اے نے تحریک انصاف کے تین رہنمائوں بیرسٹر گوہر،عمر ایوب اور رئوف حسن کو منگل 4جون کو اپنا بیان ریکارڈکرانے کیلئے طلب کر لیا ہے ،یہ کیس ایک خطرناک رخ اختیار کرتا جا رہا ہے ، پارٹی قیادت اگر چاہے تو اس ٹویٹ کو ڈیلیٹ کرادے تاکہ کشیدگی میںکسی حد تک کمی ہو اور ایف آئی اے اگر معاملے کی تفتیش کر رہی ہے تو اس کے سامنے بیان دینے میں کوئی حرج نہیں ۔
سپریم کورٹ فورم کاسیاسی استعمال روک دیا گیا








