صوابی: پی ٹی آئی رہنما و سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا ہے کہ حکومت نے علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کیلئے رابطہ کیا ہے، اب پارٹی فیصلہ کرے گی کہ کس طرح اور کس حد تک مذاکرات کیے جائیں۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے علی امین گنڈاپور کے ساتھ مذاکرات کیلئے رابطہ ہوا ہے، بانی پی ٹی آئی نے علی امین گنڈاپور کو مذاکرات کی اجازت دی ہے، اب پارٹی اپنا فیصلہ کرے گی کہ وہ کس طرح اور کس حد تک مذاکرات کرنا چاہتی ہے۔
ان کاکہناتھا کہ اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت کتنی سنجیدہ ہے اور کتنی سنجیدگی سے اس ایجنڈے کو آگے بڑھاتی ہے، 24 نومبر کے احتجاج کیلئے ہم نے حکمت عملی تبدیل کی ہوئی ہے، پہلی دفعہ عوام میں بڑا جوش و خروش ہے، ہمارے صوابی سے اتنے لوگ ہونگے کہ اگر باقی علاقوں سے لوگ نہ بھی آئیں تو یہ کافی ہیں۔
انہوں نےکہا کہ پشاور، چارسدہ، مردان اور نوشہرہ کے کارکنان صوابی سے اسلام آباد جائیں گے، باقی اضلاع کے کارکنان مختلف روٹس سے ہوتے ہوئے اسلام آباد کی طرف مارچ کرینگے۔
اسد قیصر کاکہناتھا کہ بشریٰ بی بی سے میری ملاقات ہوئی ہے، بشریٰ بی بی کے ساتھ ظلم ہوا، وہ 8 مہینے جیل میں رہیں، بشریٰ بی بی ہمارے بانی چیئرمین عمران خان کی اہلیہ اور غیرسیاسی خاتون ہیں، اس کے باوجود بشریٰ بی بی کے ساتھ جو کچھ ہوا، تو ان کا حق بنتا ہے کہ وہ اس تحریک میں اپنا کردار ادا کریں لیکن جو حکم اور ہدایات ملتی ہیں وہ صرف اور صرف بانی چیئرمین عمران خان سے ملتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف سب سے بڑی سیاسی پارٹی ہے، ہمیں عوام نے مینڈیٹ دیا اور ہم سے یہ مینڈیٹ زبردستی چھینا گیا، جعلی مینڈیٹ کی بنیاد پر حکومت بنائی گئی اور اس کے ذریعے قانون سازی ہو رہی ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ ملک میں استحکام آنا چاہیے، اس وقت لاء اینڈ آرڈر چیلنجز کا سامنا ہے، اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام ہوگا تو ملک انارکی کی طرف جائے گا۔
انہوںنے کہا کہ ہم آئین و قانون پر یقین رکھتے ہیں، ملک میں جب عدلیہ آزاد، قانون کی حکمرانی نہیں ہوگی اور عوام کو عزت نہیں ملے گی تو ملک آگے نہیں بڑھ سکے گا، ملک میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں، ظلم، جبر اور تشدد کا راج ہے، پارلیمنٹ کی کوئی حیثیت نہیں رہی، پارلیمنٹ بے توقیر ہو گئی ہے، آئین سیاسی جماعت اور عوام کو پرامن احتجاج کا حق دیتا ہے، یا تو آئین سے یہ شق نکال لیں، آپ ہمیں دیوار سے لگائیں گے تو احتجاج کے علاوہ ہمارے پاس کونسا راستہ ہے۔