اسلام آباد(ممتازنیوز)خیبرپختونخواکے وزیراعلیٰ علی امین گنداپورنے انکشاف کیاہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور تحریک انصاف کے درمیان مفاہمت اورمعاہدے کیلئے ’’نان پیپرز‘‘دستاویزات اور تجاویزکاتبادلہ ہوچکاہے،یہ تجویزبھی موجود ہےکہ عمران خان کو اڈیالہ جیل سے بانی گالہ یانتھیاگلی منتقل کردیاجائے،اب چیزیں بلیک اینڈوائٹ میں لے آیاہوں، اگران باتوں سے دوسرافریق پیچھے ہٹااور زبان سے پھرا تو ہم سمجھیں گے کہ انہیں پاکستان کی فکرنہیں ہے،اس وقت مضبوط معیشت اورسیاسی استحکام کی ضرورت ہے اور عمران خان بھی ملک میں استحکام چاہتے ہیں،آرمی چیف کو لکھے گئے خط کاجواب آناچاہئے۔
نجی ٹی وی کو انٹرویومیں علی امین گنڈاپور نے کہاکہ جب پی ٹی آئی کے حکومت سے مذاکرات شروع ہوئے تو عمران خان کو بنی گالہ، نتھیا گلی اور وزیراعلیٰ ہاؤس منتقل کرنے کی آفر ہوئی، تاہم عمران خان نے کہا کہ پہلے پارٹی کے تمام رہنماؤں کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے بھی کام کررہے ہیں، سیاسی استحکام کے بغیر ملک آگے نہیں بڑھ سکتا، اعتماد کی کمی کی بات ہے، پہلے تو ہم سے بات بھی نہیں کرتے تھے، 4 اکتوبر کے بعد جب میں ڈی چوک گیا تو اس کے بعد مذاکرات کا عمل شروع ہوا، اس کے بعد 26 نومبر کو اسلام آباد میں جو کچھ ہوا، ہمارے لوگوں کو گولیاں ماری گئیں، گولیاں حکومت نے چلوائیں، حکومت نے ہی دفعہ 144 لگا لیا تھا، جس نے بھی گولیاں چلائیں وہ ہمارا مجرم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ فارم 45 کے وزیراعلیٰ ہیں اور شہباز شریف فارم 47 کے وزیراعظم ہیں۔’جب دلائل کی بات ہوتو کوئی بھی سامنے کھڑا نہیں ہوسکتا تو فارم 47 والے وزیراعظم کیا ٹھہریں گے۔ علی امین گنڈاپور نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے کہا کہ احتجاج نہ کریں اس سے ٹکراؤ ہوتا ہے لیکن میں تو بتا دیتا ہوں کہ میرا اختیار عمران خان کے پاس ہے، اس دفعہ بھی یہ صورتحال تھی، میرا اصول ہے میں موبائل استعمال نہیں کرتا، سنگجانی میں احتجاج کی بات بیرسٹر گوہر اور بیرسٹر سیف کی اسٹیبلشمنٹ سے ہوئی تھی، اسٹیبلشمنٹ عمران خان سے بھی رابطے میں تھی، عمران خان کی طرف سے ہی پیغام آیا کہ سنگجانی میں بیٹھنے کو کہا گیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے فالورز میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو اتنا نقصان دے رہے ہیں جو دشمن بھی نہ دے سکے لیکن پھر بھی عمران خان کی وجہ سے ہم ان کی قدر کرتے ہیں، ذاتی طور پر ہم ان سے اختلاف کرسکتے ہیں لیکن عمران خان کی وجہ سے ہم ان کی قدر کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جب پہلی بار بات چیت شروع ہوئی تو میں نے تجویز دی کہ عمران خان کو کسی ایسی جگہ منتقل کردیا جائے جہاں ہم آزادانہ مشاورت کرسکیں، عمران خان کے سامنے بیٹھ کرمعاملات طے کرلیں تو بہتر ہوگا، جلدی فیصلہ ہوسکتا ہے، عمران خان کو بنی گالہ منتقل کرنے کی تجویز بھی تھی، پھر نتھیا گلی اور وزیراعلیٰ ہاؤس کی بھی تجویز تھی، یہ تجویز اب بھی ہے۔
زیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ عمران خان نے ان تجاویز پر کہا ہے کہ پہلے سارے پی ٹی آئی کارکنوں کو رہا کیا جائے تاکہ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ عمران خان خود ریلیکس ماحول میں چلے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 26 نومبر کو ہمیں پتا بھی نہیں تھا کہ وہ احتجاج میں ہمارے ساتھ اسلام آباد جائیں گی، میں نے بشریٰ بی بی کو کہا بھی کہ عمران خان نے مجھے اس طرح کی ہدایات جاری نہیں کی، ہم نے کہیں بھی بشریٰ بی بی کو اکیلا نہیں چھوڑا، اگر بشریٰ بی بی نہ ہوتی تو ہم آگے جاسکتے تھے، میں اور بشریٰ بی بی آخری دم تک ڈی چوک میں کارکنوں کے ساتھ تھے، بشریٰ بی بی کی ہم پر بڑی ذمہ داری تھی، اگر وہ گرفتار ہوجاتی یا کہیں اغوا ہوجاتی تو کون ذمہ دار ہوتا۔
ان کا کہنا تھا کہ اچھی بات ہے کہ عمران خان نے آرمی چیف کو خط لکھا ہے، دیکھتے ہیں بات کہاں تک پہنچتی ہے۔
کیا آپ پرامید ہیں کہ عمران خان کو کسی گیسٹ ہاؤس یا سی ایم ہاؤس میں رکھا جائے، وہ سلسلہ دوبارہ آگے چل سکتا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عمران خان نے گرفتار ہونے سے پہلے بھی کہا کہ وہ پاکستان کے لیے مذاکرات کرنے کو تیار ہیں، انہوں نے یہ بھی کہا کہ میں نے پاکستان کے لیے سب کو معاف کردیا ہے۔ ’80 فیصد ایک دفعہ اور 99 فیصد دوسری مرتبہ میں کامیاب ہوگیا تھا، 99 فیصد 100 فیصد میں پہنچ سکتا ہے، مذاکرات دوبارہ شروع ہوسکتے ہیں۔‘
علی امین گنڈاپور سے سوال کیا گیا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں کس نوعیت کی بات چیت ہوئی؟ جواب میں انہوں نے کہا کہ آرمی چیف سے ہونے والی ملاقات میں صوبے کی تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت موجود تھی، یہی بات ہوئی کہ سب نے مل کر ملک کی خاطر دہشتگردی کا مقابلہ کرنا ہے، یہ واحد ایجنڈا ہے جس پر سب متفق ہیں دہشتگردی کے خاتمے کے لیے ہم کوشش کررہے ہیں، یقین ہے کہ ہم دہشتگردی کا خاتمہ کریں گے، افغانستان سے بات چیت کے لیے ہم اپنا وفد بھیجیں گے وہاں پر جاکر جرگہ کے ذریعے بات چیت ہوگی، امید ہے اسی مہینے ہمارا ایک چھوٹا وفد افغانستان جائے گا، اس کے بعد مذاکرات کے ٹی او آرز بنائے جائیں گے، تمام قبائلی اضلاح کے زعما اپنے نمائندے دیں گے جو جرگے میں شریک ہوں گے، پھر ایک گرینڈ جرگہ ہوگا۔
وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے کہا کہ وفاقی حکومت افغانستان کے ساتھ ہونے والی بات چیت کا حصہ ہوگی، وہ ہمارے مذاکرات کی حمایت کرے اور ادارے ہمارے ساتھ ہوں گے، تب ہی افغانستان کے ساتھ مذاکرات آگے بڑھ سکتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اپنے مؤقف کو شدت سے بیان کرنا ایک اور بات ہے مگر ایک مسئلے کے حل کے لیے ورکنگ ریلیشن قائم کرنا علیحدہ چیز ہے، دہشتگردی کے خاتمے کے لیے سب کو ایک پیج پہ ہونا پڑے گا، ہمیں اپنی پالیسیاں جن سے ہمیں نقصان ہوا، ان کو دیکھ کر ہمیں اپنی اصلاح کرنی پڑے گی، اگر ہم غلطیوں سے سیکھنے کے بجائے ہٹ دھرمی کرتے رہیں اور انا کے مسئلے بنالیں تو مسائل حل نہیں ہوتے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسائل کے حل کے لیے انا کو ایک طرف رکھ کر قوم کے فیصلے کرنے پڑتے ہیں، ذاتی فیصلے آپ کے ہاتھ میں ہیں لیکن جب قوم کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں تو انا کو سائیڈ پہ رکھ کے قوم کے مفاد میں فیصلے کرنے پڑتے ہیں اور مثبت رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
علی امین گنڈاپور نے کہا کہ آرمی چیف سے ملاقات میں میں نے تجویز دی کہ جن پالیسیوں سے ہمیں فائدہ نہیں ہوا وہ ہمیں تبدیل کرنی پڑیں گی اور پالیسیاں اختیار کرنا ہوں گی جن سے عوام کو فائدہ ہو، خیبرپختونخوا میں عوام کا اعتماد ختم ہوچکا ہے، اس اعتماد کو بحال کرنا ضروری ہے، دہشتگردی کے خلاف جنگ جیتنے کے لیے ہمیں عوام کو اعتماد میں لے کر انہیں ساتھ ملانا ہوگا، عوام کے تعاون کے بغیر دہشتگردی کے خلاف جنگ نہیں جیتی جاسکتی۔
انہوں نے کہاکہ نگران حکومت میں گندم خریداری کے معاملے کی ہم نے تحقیقات شروع کیں،مجھے پارٹی کی صوبائی صدارت سے ہٹایاگیاتو اعتراض نہیں۔
دریں اثناپشاور میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا علی امین گنڈا پور نے کہا کہ عمران خان کا حکم میرا فیصلہ ہوگا، جب وہ چاہیں گے کابینہ میں تبدیلی ہوگی، وزیروں کی کرپشن کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے، بانی پی ٹی آئی کا اعتماد ہے جب ہی وزیراعلی بیٹھا ہوں، فارم 47 کے وزیراعظم کے پاس دینے کو کچھ نہیں، آرمی چیف نے این ایف سی اجلاس بلانے کی یقین دہائی کرائی ہے اگر این ایف سی نہ بلائی گئی تو سپریم کورٹ جائیں گے۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ پنجاب کا خسارہ 140 ارب ہے ہمارا 156 ارب سرپلس ہے، اگر ترقی کرپشن ہے تو ایسی کرپشن کو پاکستان کی سخت ضرورت ہے، 49 فیصد ریونیو میں اضافہ کیا ہے، تاریخ میں کسی صوبے نے سال میں اتنا اضافہ نہیں کیا، پیسہ پہلے کہاں جارہا تھا؟ زبردست کرپشن ہے کہ ہم نے ریونیو میں تاریخی 49 فیصد اضافہ کیا، ریونیو میں اضافہ گڈ گورننس کی اعلی مثال ہے، صحت کارڈ پر 20 ارب کے واجبات ختم کرکے صحت کارڈ کو دوبارہ شروع کیا۔
علی امین گنڈا پور نے کہا کہ اچھی مینجمینٹ سے صحت کارڈ میں سالانا 11 ارب کی بچت ہورہی ہے، دس بارہ ارب روپے کی ادویات اب ہم 5 ارب میں لے رہے ہیں۔
وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے مزید کہا کہ لفٹ کینال صوبے کے نہیں پورے پاکستان کے زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہوگی، ترقیاتی منصوبوں کی منسوخی کیوجہ سے کچھ سالوں میں 450 ارب کا نقصان ہوا ہے، ہم ترقیاتی کاموں کے لئے پوری رقم دیں گے کہ منصوبے وقت پر پورے ہو،ٹرانسمیشن لائن پر کام جاری ہے ڈیرھ سو ارب روپے کا منصوبہ ہے،ٹرانسمیشن لائن سے صنعتوں کو 600 میگاواٹ سستی بجلی دیں گے، کے پی پہلا صوبہ ہے کہ قرضہ اتارنے کے لیے انڈونمںٹ فنڈ میں 30 ارب روپے جمع کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وفاق کے ذمے واجب الادا رقم 2000 ارب روپے ہیں،این ایف سی کے اجلاس بلانے کا وعدہ کیا گیا ہے،ا جلاس میں آرمی چیف نے این ایف سی بلانے پر بھی اتفاق کیا، آبادی بڑھ گئی ہے این ایف سی میں ہمارا حصہ بھی بڑھے گا، بانی سے سب سے کم ملاقاتیں میری ہوتی ہے، 3 وزیروں کی کرپشن کی باتوں میں کوئی صداقت نہیں ہے۔
علی امین گنڈاپور کا کہنا تھا کہ بانی پی ٹی آئی کا اعتماد ہے کہ وزیر اعلی بیٹھا ہوں، نئے تعینات آئی جی انتہائی پروفیشنل افسر ہے، پنجاب میں دہشت گردی پر بہت کام کیا ہے، بیسٹ افسر ہے ہمیں ایسے افسر کی ضرورت ہے، آرمی پاکستان کے معاشی صورتحال میں پوری طرح اچھا کردار ادا کررہی ہے، آرمی چیف سے اجلاسوں میں بات چیت ہوتی رہتی ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ افغانستان کی صورتحال سے ہمارا صوبہ سب سے زیادہ متاثر ہورہا ہے، افغانستان کے ساتھ مجاہدین والا رشتہ موجود ہے، افغانستان میں جرگہ لے کر جائیں گے، جرگے میں تمام قبائل کے لوگ شامل ہوں گے۔