بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

غزہ میں مجوزہ جنگ بندی کا قیدیوں کے تبادلے اور فوجی انخلا سے آغاز ہوگا

غزہ میں جاری تنازع کے خاتمے کے لیے امریکا، قطر اور مصر کی ثالثی میں 60 روزہ جنگ بندی کا مجوزہ منصوبہ سامنے آیا ہے، جس میں قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، اسرائیلی افواج کا انخلا اور مستقل امن کے لیے مذاکرات شامل ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق، مذاکرات سے واقف ایک اہلکار نے بتایا کہ غزہ میں 60 روزہ جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت یافتہ مجوزہ منصوبے میں قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی، محصور علاقے سے اسرائیلی افواج کا انخلا اور تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات شامل ہیں۔

یہ منصوبہ تنازع میں شامل دونوں فریقوں کی منظوری سے مشروط ہے۔ امریکا، قطر اور مصر کے ثالث اس معاہدے کو یقینی بنانے کے لیے کوشاں ہیں۔

رائٹرز سے بات کرتے ہوئے، نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ایک اہلکار نے بتایا کہ اس منصوبے میں فلسطینی علاقے میں دشمنی کے مستقل خاتمے کے لیے مذاکرات کی شقیں بھی شامل ہیں۔

موجودہ مسودے کے تحت، 10 اسرائیلی قیدیوں کو واپس کیا جائے گا، جب کہ 18 دیگر کی لاشیں لوٹائی جائیں گی۔

شیڈول کے مطابق، پہلے دن 8 قیدی، ساتویں دن 5 لاشیں، تیسویں دن 5 لاشیں، پچاسویں دن 2 قیدی اور ساٹھویں دن 8 لاشیں لوٹائی جائیں گی۔

یہ تبادلے بغیر کسی تقریب یا جلوس کے انجام دیے جائیں گے۔

٫
دسویں دن، حماس سے توقع کی جائے گی کہ وہ باقی ماندہ قیدیوں کے زندہ یا جاں بحق ہونے کی تصدیق کے لیے معلومات، شواہد اور طبی رپورٹس فراہم کرے گی۔

دوسری جانب، اسرائیل ان تمام فلسطینی قیدیوں سے متعلق مکمل معلومات فراہم کرے گا جو 7 اکتوبر 2023 کے بعد غزہ سے گرفتار کیے گئے۔

روایتی طریقہ کار کے مطابق، حماس کی جانب سے قیدیوں کو رہا کیا جائے گا، جس کے بدلے اسرائیل بھی زیر حراست فلسطینیوں کو آزاد کرے گا۔

اسرائیل کا کہنا ہے کہ حماس اور اس کے اتحادیوں کی حراست میں موجود 50 قیدیوں میں سے تقریباً 20 کے زندہ ہونے کا امکان ہے۔

اس کے علاوہ، اقوامِ متحدہ اور ریڈ کراس کی شمولیت کے ساتھ، غزہ میں فوری طور پر مناسب مقدار میں امداد فراہم کی جائے گی، جو کہ 19 جنوری کے معاہدے کے مطابق ہو گی۔

جب پہلے 8 اسرائیلی قیدی رہا کر دیے جائیں گے، تو اسرائیلی افواج شمالی غزہ کے کچھ علاقوں سے انخلا کریں گی، جیسا کہ نقشوں پر طے کیا جائے گا۔

ساتویں دن، اسرائیلی فوج جنوبی غزہ کے کچھ حصوں سے بھی پیچھے ہٹے گی۔

ایک تکنیکی ٹیم انخلا کی حدود کے تعین پر کام کرے گی، جو اس فریم ورک پر معاہدے کے بعد تیز رفتار مذاکرات کے ذریعے طے کی جائیں گی۔

ایک مستقل جنگ بندی کے لیے بھی مذاکرات شروع ہوں گے، جن میں مزید قیدیوں کا تبادلہ، غزہ کے لیے طویل المدتی سیکیورٹی انتظامات اور مستقل جنگ بندی کا اعلان جیسے نکات شامل ہوں گے۔

اگر معاہدہ طے پا گیا، تو 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے غزہ سے گرفتار کیے گئے تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

یہ تجویز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے معاہدے کی یقین دہانی کی ضمانت بھی فراہم کرتی ہے۔

اگر 60 روزہ جنگ بندی کے دوران مذاکرات کامیاب ہو گئے، تو یہ تنازع کے مستقل خاتمے کا سبب بنیں گے اور ثالث اس بات کی ضمانت دیں گے کہ اس وقفے کے دوران سنجیدہ مذاکرات کیے جائیں گے۔