بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

اتحادی ، ممکنہ نئی حکومت کے اتحادی؟۔۔۔تحریر: قاضی سمیع اللہ

ملکی سیاست میں ہلچل مچی ہے ،قیاس آرئیوں کا بازار گرم ہے ۔تجزیے اور تبصروں میں وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے مستقبل کا تعین کیا جارہا ہے ۔حزب اختلاف کی جانب سے وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کے بعد پوری قوم کی نظریں قومی اسمبلی کے اجلاس پر لگی ہے کہ یہ اجلاس کب بلایا جاتا ہے جس میںتبدیلی سرکار کی قسمت کا فیصلہ کیا ہونا ہے ۔اس وقت ملک میں سیاست کا عجیب چلن ہے کہ حکومت’’ جلسے پر جلسے‘‘ کررہی ہے جبکہ حزب اختلاف اپنی عدم اعتماد کی تحریک کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لیے ’’سیاسی رابطوں ‘‘میں مصروف ہے ۔ تدبیر اور تقدیر کے اس کھیل میں’’ عوام کی قسمت‘‘کہاں کھڑی ہے اس حوالے سے نا ہی حکومت کو کوئی فکرہے اور نا ہی حزب اختلاف کچھ سوچ رہی ہے۔ ایسے میں اردو زبان کے ممتاز شاعر کیف عظیم آباد ی کا یہ شعر یاد آگیا۔
وہی لوگ جینے کا فن جانتے ہیں
جو احساس سود و زیاں چھوڑ آئے
کہا جارہا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے بلائے جانے والے قومی اسمبلی کے اجلاس کے پہلے پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ایک بہت بڑا جلسہ کرنے کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ اس سلطانی خواہش کی تکمیل کے لیے پی ٹی آئی کی مقامی قیادت کو خصوصی ٹاسک بھی سونپا گیا ہے ۔اس ٹاسک کے مطابق 10لاکھ افراد کا مجمع ’’ڈی چوک‘‘ پر لگائے جانے کا عندیہ دیا گیا ہے۔دوسری جانب حزب اختلاف کے اتحاد پی ڈی ایم اور جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان کو تیار رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا ہے کہ جب اسلام آباد بلایا جائے وہ فوراً پہنچ جائیں جبکہ مولانا فضل الرحمن کا یہ کہنا بھی تھا کہ وزیراعظم عمران خان اسلام آباد میں 10لاکھ افراد نہ لائے بس ’’172نمبرز‘‘ پورے کرے ۔حکومت اور اپوزیشن کی جانب سے ’’چیلنج در چیلنج ‘‘کی سیاست کی جارہی ہے ، دعوے اور نعروں سے سیاسی جنگ جیتنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ایسے میںدونوں جانب کے سیاسی ورکر اس سیاسی محاذ آرائی کا ایندھن بننے کے لیے مچلے جارہے ہیں ۔بلاشبہ وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار میں آنے سے پہلے جو دعوے کیے تھے اس میں انھیں قابل ذکر کامیابی حاصل نہیں ہوسکی لیکن سمندر پار پاکستانیوں کا ایک طبقہ آج بھی وزیر اعظم عمران خان کو ’’مسیحا‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں جو یہ سمجھتے ہیں ملکی مسائل کا واحد حل وزیر اعظم عمران خان ہی ہیں ۔سمندر پار پاکستانیوں کے جہاں تک جذبہ ایمانی کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ حب الوطنی میں اپنی مثال آپ ہیں لیکن جہاں تک وزیر اعظم عمران خان کو سیاسی مسیحا تصور کرنے کی بات ہے تو اسی تصور نے ہی وزیر اعظم عمران خان کو بلند بانگ دعوے کرنے کی ترغیب دی ہے ۔ یعنی ساری خرابی اس بات میں تھی کہ ’’عمران خان آئے گا اور بیرونی سرمایہ کاری لائے گا‘‘لیکن حقیقت اس کے بر عکس ہے کہ ان ساڑھے تین برسوں میں وزیر اعظم عمران خان کوئی قابل ذکر بیرونی سرمایہ کاری نہیں لاسکے بلکہ بیرونی سرمایہ کاری سے پہلے سے جو ترقیاتی منصوبے چل رہے تھے وہ بھی ٹھپ ہو کر رہ گئے جس میں پاک چین راہداری منصوبہ (سی پیک)سر فہرست ہے ۔بہر کیف’’ تبدیلی کا نعرہ اور فلاحی ریاست کا دعویٰ ‘‘پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان وزارت عظمیٰ کے منصب پر تو فائز ہوگئے لیکن عام آدمی کا دکھ اور قوم کا غم اپنی جگہ جوں کا توں ہے ۔ اس طرح کے موقع پر ممتازشاعر کیف عظیم آباد ی کا یہ شعر خوب فٹ بیٹھتا ہے۔
نکل آئے تنہا تری رہگزر پر
بھٹکنے کو ہم کارواں چھوڑ آئے
بہر کیف سیاسی کہانی آنے والے دنوں میں نئی ’’سیاسی تاریخ‘‘ بننے جارہی ہے ۔وزیر اعظم عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے یا پھر ناکامی سے دوچار ہوتی ہے لیکن اس سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کے اتحادی ’’عدم اعتماد‘‘ کا شکار ہوتے جارہے ہیں جو امر کی غمازی ہے کہ تبدیلی سرکار کے اتحادی کسی بھی وقت اپنارخ پھیر سکتے ہیں اگر ایسا ہوتا ہے کہ وزیر اعظم عمران خان کے اتحادی ممکنہ ’’نئی حکومت‘‘کے اتحادی بھی ہونگے ۔ سیاست بے رحم ہوتی ہے یہ عہد حاضر کا فلسفہ ہے لیکن کسی زمانے میں سیاست کو خدمت کا فلسفہ تصور کیا جاتا تھا تاہم آج کی سیاست میں ’’کچھ دو اور کچھ لو‘‘کی فلاسفی مروجہ ہے جسے مہذب زبان میں’’ سیاسی پیشکش‘‘ کہا جاتا ہے جیسا کہ حزب اختلاف کی جانب سے حکومتی اتحادی جماعتوں پنجاب میں مسلم لیگ (ق) کو وزارت اعلیٰ اور سندھ میں ایم کیو ایم (پاکستان) کو گورنر کے عہدے کی پیشکشیں کی جارہی ہیں ۔کتنی حیران کن بات ہے کہ حکمران جماعت پی ٹی آئی اپنے اتحادی ایم کیو ایم پاکستان کو اپنے ساتھ کرنے کے لیے گورنر سندھ کو ان کے پاس بھیجتی ہے جبکہ حالیہ سیاست میں سندھ کی گورنر شپ ان کا انتظار کررہی ہے ۔یہی صورتحال پنجاب میں بھی حکمران جماعت پی ٹی آئی کو در پیش ہے ۔