بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

کپتان کی سیاسی زندگی کا نائن الیون۔۔۔تحریر: محمد بلال غوری

جنرل (ر) اسد درانی نے افواجِ پاکستان سے ریٹائرمنٹ کے بعد بندوق ایک طرف رکھ کر قلم تھام لیا اور اخبارات و جرائد میں لکھنا شروع کیا تو 23 جولائی 1993میں انکا ایک مضمون انگریزی اخبار میں شائع ہوا جس کا عنوان تھا”In Neutral Gear“۔ اِس مضمون میں انہوں نے واضح کیا کہ سیاسی اصطلاحات سے دھوکہ مت کھائیں کیونکہ انکے لفظی معنی کچھ اور ہوتے ہیں جبکہ حقیقی مفہوم کچھ اور ہوتا ہے۔

مثال کے طور پر جب سیاستدان کہتے ہیں کہ فوج سیاست سے دور رہے تو اسکا مطلب ہوتا ہے کہ ہم اقتدار میں ہیں اور ہماری حکومت کو صرف آپ سے خطرہ ہو سکتا ہے لہٰذا اپنے کام سے کام رکھیں۔

اسی طرح جب کوئی یہ کہتا ہے کہ فوج اپنی قومی اور آئینی ذمہ داریاں نبھائے تو وہ دراصل یہ عرضی پیش کر رہا ہوتا ہے کہ ہم اپوزیشن میں ہیں، ہمارے پاس اقتدار حاصل کرنے کا اور کوئی راستہ نہیں، براہِ کرم ہماری مدد کریں۔ جنرل (ر) اسد درانی کے مطابق جب یہ فرمائش کی جاتی ہے کہ فوج ”نیوٹرل“ رہے تو اس کی تشریح یہ ہے کہ فی الحال حالات کنٹرول میں ہیں، اگر ضرورت پڑی تو ہم آپ کو بلائیں گے۔

جنرل(ر) اسد درانی کا یہ مضمون 29سال بعد اس لیے یاد آیا کہ وزیراعظم نے یہ کہہ کر کہ ”نیوٹرل تو صرف جانور ہوتے ہیں“ ایک نئی بحث چھیڑ دی ہے اور ابھی تک اس بحث کا منطقی نتیجہ برآمد نہیں ہو پایا۔

 جنرل (ر) اسد درانی کو شاید یہ توقع نہیں تھی کہ مستقبل میں کبھی کوئی وزیراعظم ”غیر جانبداریت“ کو بھی ہدف تنقید بنائے گا ورنہ وہ اس حوالے سے بھی رہنمائی فرما دیتے۔ مجھے تو وزیراعظم کی بات پر کوئی اعتراض نہیں لیکن شاید ”نیوٹرل جانوروں“ کو یہ بات بری لگی ہو۔ ویسے سب جانور نیوٹرل نہیں ہوتے۔

 کتا اور گھوڑا وفاداری میں اپنی مثال آپ ہیں۔ کئی جانور خطرناک ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر شیر، چیتا، بھیڑیا۔ کئی جانور تو ایسے ہیں کہ ان کا نام بھی نہیں لیا جا سکتا۔ ہاتھی جس کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور ہوتے ہیں، اسے کس طرح نیوٹرل قرار دیا جا سکتا ہے۔

 اونٹ بھلا جانور ہے مگر کسے معلوم وہ کب کس کروٹ بیٹھنا پسند کرے۔ گدھے کو کسی حد تک ”نیوٹرل“ کہا جا سکتا ہے مگر وہ بھی ڈھینچوں ڈھینچوں کرتے ہوئے موقع کی تاک میں رہتا ہے اور وقت آنے پر اپنے مالک کو دولتی مارنے سے گریز نہیں کرتا۔ حیوان تو بہت سادہ ہوتے ہیں البتہ انسان تیل اور تیل کی دھار دیکھ کر اپنی حکمتِ عملی تبدیل کرتے ہیں۔ کبھی آئینی فرض کی ادائیگی پر اصرار کرتے ہیں، کبھی یہ تکرار ہوتی ہے کہ کوئی نہیں کرے گا تو ہم کریں گے اور کبھی نیوٹرل ہوکر اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جس طرح خاموشی بھی اظہار کا ایک ذریعہ ہوتی ہے اسی طرح غیرجانبداریت اور لاتعلقی بھی ایک نوعیت کا کردار نبھانے والی بات ہے۔

آپ اگرسائنس کے طالبعلم رہے ہیں تو کیمسٹری میں Neutral Substanceکی یہ تعریف پڑھی ہوگی کہ ”بےرنگ، بےبو اور بےذائقہ شے، کو غیر جانبدار مادہ کہتے ہیں۔ اسی طرح اگر آپ نے فزکس پڑھی ہے تو یقیناً یہ جانتے ہوں گے کہ حرکی توانائی کے اعتبار سے نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ کسی قسم کی مثبت یا منفی توانائی خرچ نہیں ہو رہی۔

اگر آپ نے کیمسٹری یا فزکس نہیں پڑھی تو بھی کوئی بات نہیں، گاڑی تو چلائی ہوگی یا ڈرائیور کے ساتھ بیٹھے ہوں گے۔ نیوٹرل گیئر کا مطلب ہوتا ہے کہ گاڑی رُک گئی ہے اب یہ نہ آگے جائے گی نہ پیچھے۔ ہاں گاڑی کو دھکا لگا کر آگے، پیچھے، دائیں بائیں لڑھکایا جا سکتا ہے لیکن گاڑی کا انجن حرکت میں نہیں آئے گا۔

وزیراعظم ہی نہیں ان کے ہمنوا بھی ”نیوٹرل اِزم“ کے خلاف مورچہ سنبھالے ہوئے ہیں۔ گاہے کوئی ڈیسمنڈ ٹوٹو کا یہ قول یاد دلاتا ہے کہ اگر کوئی ہاتھی کسی چوہے کی دُم پر پاؤں رکھ دے اور آپ کہیں کہ بھائی ہم تو نیوٹرل ہیں تو اس چوہے کو آپ کا نیوٹرل ہونا پسند نہیں آئیگا۔

 لیکن سوال تو یہ بھی ہے کہ اگر وہ چوہا آپ کے گھر کو برباد کر چکا ہو تو آپ اپنی زندگی خطرے میں ڈال کر اسے بچائیں گے یا نیوٹرل اِزم سے کام چلائیں گے؟ اسی طرح کپتان کے بعض چاہنے والے Dante Alighieriکا یہ قول نقل کرتے دکھائی دیتے ہیں کہ جو معرکہ حق و باطل یا اخلاقی کشمکش کے دوران غیرجانبداریت برقرار رکھتے ہیں، دوزخ کے بدترین مقامات ان کے لیے مختص ہیں۔

یہاں ایک غلط فہمی دور کرنا ضروری ہے، کیا کسی وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک واقعی حق و باطل کا معرکہ ہوتی ہے؟ جن سے آپ مخاطب ہیں، وہ اگر واقعی اسے اخلاقی کشمکش جان کر آپ کے خلاف صف آرا ہو گئے تو تب کیا ہوگا؟ آپ کو تو اس بات پر شکر ادا کرنا چاہیے کہ وہ نیوٹرل ہیں، آپ کے خلاف نہیں ہیں۔

تو کیا وزیراعظم نے جو فرمایا، وہ سب قوم کا سرمایہ؟ یعنی اللہ نے اچھائی اور برائی میں ہمیں غیرجانبدار ہونے کی اجازت نہیں دی؟ سیاسی کارکن، ووٹر آزاد ہے اپنی پسند ناپسند کا اظہار کرنے میں، وہ ووٹ دیتے ہوئے نیوٹرل نہیں رہتا، اپنا وزن کسی نہ کسی کے پلڑے میں ڈالتا ہے لیکن اگر کوئی شخص کسی ایسے منصب پر براجمان ہے جو غیرجانبداری کا تقاضا کرتا ہے تو پھر آپ اسے نیوٹرل ہونے کا طعنہ نہیں دے سکتے۔

مثال کے طور پر مسندِ انصاف پر متمکن جج نے ساتھ تو حق اور سچ کا ہی دینا ہے لیکن اگر جرم ثابت نہ ہو تو وہ اپنی خواہش کے مطابق کسی کو سزا نہیں دے سکتا۔

افواج پاکستان میں شامل ہوتے وقت جو حلف اُٹھایا جاتا ہے، اس کی پاسداری ضروری ہے چاہے کسی بھی قسم کا معرکہ ہی درپیش کیوں نہ ہو۔ صحافی اپنی خواہش کو خبر کی شکل میں پیش نہیں کر سکتا، یہاں اسے نیوٹرل رہنا ہے البتہ بطور تجزیہ کار وہ اپنی رائے کا اظہار کرتے وقت غیر جانبداریت برقرار رکھنے کا پابند نہیں۔

اپنے دائرہ کار میں رہنا، اپنے حلف سے روگردانی نہ کرنا، اپنی حدود سے تجاوز نہ کرنا، قومی فرض کی ادائیگی جیسی مسحور کن اور پرکشش اصطلاحات کے فریب میں نہ آنا ہرگز قابلِ مذمت نہیں۔ وزیراعظم صاحب نے جو فرمایا اس کے لفظی معنی خواہ کچھ بھی ہوں مگر حقیقی مفہوم یہی ہے کہ انہیں اپنی سیاسی زندگی کا نائن الیون درپیش ہے۔ جس طرح بش نے 11 ستمبر کے بعد کہا تھا، یا تو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر ہمارے خلاف، نیوٹرل رہنے کی گنجائش نہیں۔