بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈر میں فرق ہے، قانون بارے غلط فہمیاں پھیلائی گئیں، ڈاکٹر مہرب معیز

اسلام آباد(فیصل اظفر علوی) معروف ٹرانس جینڈر ایکٹوسٹ ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے کہاہے کہ خواجہ سرا اور ٹرانس جینڈرز میں بنیادی طور پر فرق ہے، اس حوالے سے 2018 ء میں بنائے جانیوالے ٹرانس جینڈرز پروٹیکشن ایکٹ میں تیسری جنس کی مفصل تعریف بیان کی گئی ہے تاہم قانون کے بارے میں غلط فہمیاں پھیلائی گئی ۔ ممتازایچ ڈی سے گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹر مہرب معیز اعوان نے کہا کہ میں نے خیبر یونیورسٹی سے ایم بی بی ایس کیا اور فل برائٹ حاصل کرنے کے بعد امریکہ سے پبلک ہیلتھ میں ماسٹرز بھی کیا۔ بعد ازاں میں پاکستان آ گئی اور 2012 میں ٹرانس جینڈرز میں ایچ آئی وی کے حوالے سے کام شروع کیا، آج کل میں ٹرانس جینڈرز کے لئے بننے والے قوانین، ان پر ہونے والے تشدد اور سوشل انٹیگریشن پر کام کر رہی ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ خواجہ سرائوں کو معاشرہ جلدی سے قبول نہیں کرتا اور اگر کوئی معاشرے کا فعال حصہ بننا چاہے تو اس کا راستہ روکا جاتا ہے۔ اس حوالے سے انہوں نے ایک واقعہ سناتے ہوئے کہاکہ لاہور میں ایک ادارے کی انتظامیہ نے انہیں وہاں ہونے والے ’ٹیڈ ٹاک‘ شو میں آنے سے روک دیا۔ انہیں سکول انتظامیہ نے بتایا کہ بچوں کے والدین نہیں چاہتے کہ مخنث افراد ان کے بچوں کے سامنے آ کر خطاب کریں۔جس پرانتظامیہ کو خاصے عوامی رد عمل کا سامنا کرنا پڑا، لوگوں نے یہ سوال اٹھایا کہ ’ایک ٹرانس جینڈر کو ٹرانس جینڈر ہونے کی وجہ سے (پینل سے) کیوں ہٹا دیا گیا جبکہ تقریر میں کچھ بھی ٹیڈ ایکس کے رہنما اصولوں کے خلاف نہیں تھا۔‘ڈاکٹر مہرب کو پینل سے نکالنے کی وجہ کیا؟”۔ان کا کہنا تھا کہ آج کل کے خواجہ سرا وہ نہیں جو بھیک مانگتے ہوں،آج کا خواجہ سرا روزگار ، رہائش، تعلیم و صحت جیسے بنیادی حقوق مانگ رہا ہے۔ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ 2018 ء نے خواجہ سرائوں کو بنیادی حقوق دیئے ہیں جس سے ہماری کمیونٹی میں جینے کی نئی امنگ پیدا ہوئی ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی جب بھی شہریت کا حق مانگتی ہے تو وہ متنازع ہوجاتی ہے اور اسے سیاسی مسئلہ بنا دیا جاتا ہے حالانکہ ہمارا ملک اور دین ہمیں مساوات، بنیادی حقوق کی فراہمی کی ضمانت دیتے ہیں ۔ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹرانس جینڈر افراد کو مغربی پیمانوں پر پرکھا جاتا ہے جبکہ ہمارے معاشرے میں ایسا نہیں،ہماراکمیونٹی کلچر بہت اچھا ہےاور مغرب جیسے حالات قطعاََ نہیں۔خواجہ سرا کمیونٹی کو چند عناصر کی جانب سے نا پسندیدہ کاموں پر مجبور کرتے ہوئے ان کا استحصال کیا جاتا رہا ہے لیکن اب ہماری کمیونٹی میں خاصا شعور آیا ہے اور وہ لوگوں کے آگے ہاتھ پھیلانے کی بجائے مختلف قسم کے کام کاروبار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ خواجہ سرا ہونا اللہ کی طرف سے ہے جس میں انسان کا کوئی ہاتھ نہیںاور جب خالق نےآپ کو ایسا پیدا کیا ہے تو آپ اس کی تخلیق پر کس طرح سوال اٹھا سکتے ہیں۔ خواجہ سرا یا ٹرانس جینڈر فرد کسی بھی گھر میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ انہیں سمجھنے اور سپیس دینے کی ضرورت ہے۔ خدا تعالیٰ نے ان کے اندر روح ہی ایسی پیدا کی ہے ۔جن میں تھوڑے بہت طبی یا نفسیاتی مسائل ہوں انہیں اپنا علاج کروانا چاہئے ۔ سائنسی ترقی کے بعد آج کل ایسی کئی طبی سہولیات موجود ہیںاور جن کا علاج ممکن نہیں انہیں اسی طرح معاشرے میں قبول کرنا چاہئے۔میڈیکل سرٹیفکیٹ کے بغیر کسی کی جنس کا تعین نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس بارے میں رائے قائم کی جا سکتی ۔ ڈاکٹر مہرب معیز کا مزید کہنا تھا کہ اس حوالے سے لوگوں میں شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔ معاشرہ اگر انہیں عام شہری کے طور پر لے تو وہ اس کا سرگرم اور مثبت حصہ بن سکتے ہیں۔ ہم نے کئی دہائیوں کی محنت کے بعد پاکستان کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھا ہے ۔ بیرونی طاقتوں کے ایجنڈا کو مسترد کرتے ہوئے اپنے پیارے ملک میں نفرت اور غلط فہمیوں کی بیخ کنی کرنی چاہئے۔