بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

اچار کا توڑ جلیبی میں ہے

یوں تو ایک طویل عرصے تک میں نے اپنے کھانے کے ساتھ اچار کوبطور سلاد اور رائتہ کے رکھا ہے لیکن گزشتہ دو تین روز سے اپنے دوپہر کے کھانے میں اچار کا استعمال بہت زیادہ کررہا ہوں۔ قصہ کچھ یوں ہے کہ میری دفتری سیٹ کی دیوار کے اس پار کچھ دوست اپنی پیشہ وارانہ فرائض منصبی کی ادائیگی کرتے ہیں ان میں کچھ دوستوں کا تعلق سندھ سے ہے جو شکار پور کا اچار کھانا پسند کرتے ہیں۔جہاں تک شکار پوری اچار کا تعلق ہے یہ سندھ میں ہی نہیں بلکہ ملک کے طول و عرض میں بھی کافی شہرت رکھتا ہے۔ اچار جیسا کہ بھارت ، بنگلہ دیش اور پاکستان میں یکساں طور پر استعمال ہوتا ہے جو عموماً پھلوں اور سبزیوں سے تیار کیا جاتا ہے جن میں آم ، لیموں ، ادرک ، لہسن ، کریلا ، ٹماٹر ، گاجر ، املی اورکدو وغیرہ جیسی پھل و سبزیاں شامل ہیں۔ اچار والی سنگت کی طرف سے جو مجھے اچار پیش کیا گیا ہےوہ سرخ گاجر کا ہے غالباً اس میں کسی حد تک لہسن کی آمیزش بھی ہے لیکن یہ اچار اپنے ذائقے میں اپنی مثال آپ ہے، جب میں اس اچار کو کھاتا ہوں تو اس کا ذائقہ گھنٹوں میری زبان پر رہتا ہے ۔اچار جسے میں شوق سے کھاتا ہوں لیکن اس شوق کو خود ہی موت کے گھاٹ بھی اتارنا پڑتا ہے اور اچار کے ذائقے کو زبان سےرفع کرنے کے لئے مجھے بالآخر ’’جلیبی ‘‘کھانی پڑتی ہے ، جلیبی کی تاریخ بھی کچھ عجیب ہے ، کہا جاتا ہے جلیبی مغربی ایشیا یا افریقی ممالک کا پکوان ہے ، یہ میدہ آٹے کو خوب تل کر گول شکل میں لچھے ڈال کر بنائی جاتی ہے جسے شیرے یا شہد میں بھگویا جاتا ہے ۔جہاں تک جلیبی کی تاریخ کا تعلق ہے اسے ابتدا میں شہد اور گلاب کے پانی میں ڈبو کر تل کربنایا جاتاتھا ۔ یہ پکوان یا اس کا نسخہ ترک حملہ آور قرون وسطیٰ سے ہندوستان لائے تھے، پندرہ ویں صدی میں ہندوستان میں جلیبی کو کنڈا لیکا یا جلاوا لیکا کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ یہاں دلچسپ امر یہ ہے کہ بسا اوقات جلیبی کے لئے تیار کئے گئے شیرے میں لیموں کا رس یا کوئی کھٹی چیز ڈالی جاتی ہے۔یہی وہ نقطہ ہے جہاں میں پہنچنا چاہتا ہوں یاسمجھنا چاہتا ہوں کہ آخر اچار کے ذائقے کو زبان سے اڑانے کے لئے آخر میں جلیبی ہی کیوں کھانا پڑتی ہے جبکہ اس سے پہلے مجھے یہ بات معلوم نہیں تھی کہ جلیبی کے شیرے میں بسا اوقات لیموں کا رس یا کھٹائی بھی ملائی جاتی ہے لیکن یہ بات جاننے کے بعد مجھ پر یہ بات عیاں ہوئی کہ ’’اچار کا توڑ تو صرف جلیبی میں ہے‘‘۔ اب یوں ہے کہ جس دن میں اچار کھاتا ہوں تو مجھے بعد ازاں جلیبی بھی کھاناپڑتی ہے۔
اچار اور جلیبی کے درمیان اس عمل کو دوستی کہا جائے یا دشمنی لیکن یہ طے ہے کہ یہ ایک ایسا مرکب ہے جو ایک دوسرے کی کاٹ رکھتا ہے۔ کیا عجیب بات ہے کہ پاکستانی سیاست بھی اچار اور جلیبی کی طرح کا ہی ایک مرکب ہے جہاں اپوزیشن اور حکمران جماعتوں کے درمیان ایسی نوک جھونک چلتی ہے کہ ہر لمحے زبان پر ترش اور مٹھاس جاری رہتی ہے۔ ان دنوں ملک میں سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے عمران خان کا لانگ مارچ ٹولیوں کی شکل میں اسلام آباد کی طرف رواں دواں ہے جبکہ عمران خان خود لانگ مارچ میں عملی طور پر موجود نہیں ہیں۔ یعنی کہ لانگ مارچ کے شرکاء لمبی سڑکوں اور کھلی فضائوں کا اچار کھا رہے ہیں تو عمران خان اپنے ڈرائنگ روم میں بیٹھ کر ویڈیو لنک پر خطاب کرکے جلیبی جیسے ذائقے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔
ملک میں سیاسی عدم استحکام حکومت کے لئے نہ صرف چلینج بن گیا ہے بلکہ ایک ایسے اچار کی مانند ہو گیاہے جسے مکس اچار کہا جائے تو بجا ہوگا جس میں طرح طرح کی سبزیاں اور بھانت بھانت کے مصالحے پڑے ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں معلوم ہوتا کہ اس اچار میں اصل ذائقہ کس چیز کا ہے۔ اسی طرح جلیبی کا معاملہ ہے جو اس انداز سے گول گول لچھے دار بنائی جاتی ہے کہ معلوم ہی نہیں چلتا کہ یہ کہاں سے شروع ہوئی اور کہاں پر جاکر ختم ہوئی ہے ایسے میں گلزار کا یہ قطعہ خوب ہے ۔ؔ
کوئی اٹکا ہوا ہے پل شاید
وقت میں پڑ گیا ہے بھل شاید
دل اگر ہے تو درد بھی ہو گا
اس کا کوئی نہیں ہے حل شاید
ایسا ہے کہ پاکستانی سیاست میں جو عدم استحکام پایا جاتا ہے اس کی بنیادی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی۔بصورت دیگر پاکستانی سیاست اچار اور جلیبی کے دو مختلف اور مخالف ذائقوں کے درمیان پھنس کر رہ جائے گی اور ایک وقت ایسا بھی آسکتا ہے کہ یہ دونوں چیزیں مل کر کوئی ایسا ذائقہ تشکیل دے دیں جو کسی کے لئے بھی موافق نہیں ہو گا۔
قاضی سمیع اللہ