بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پنجاب میں سیاسی جوڑ توڑ عروج پر

پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی طرف سے اسمبلیوں سے مستعفی ہونے کے بجائے پنجاب اورخیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑنےکے اعلان کے بعد سیاسی سرگرمیوں اوررابطوں میں ہرگزرتے دن تیزی آرہی ہے سب سے زیادہ ہیجان خیز صورتحال پنجاب میں ہے جہاں ایک طرف تحریک انصاف اور ق لیگ کی قیادت نے اپنے اپنے ارکان پنجاب اسمبلی کوبیرون ملک جانے سے روک دیاہے اورانہیں موجودہ سیاسی صورتحال پرمشاورت کےلیے ملک میں موجود اورقیادت سے رابطے میں رہنے کی ہدایت کی ہے تحریک انصاف کوآج لاہورپہنچنے اورعمران خان کی قیادت میں کل ہونے والے ارکان پنجاب اسمبلی کے اجلاس میں حاضری یقینی بنانے کے لیے بھی کہاگیاہےاسمبلیوں کی تحلیل کے حوالے سے شاہ محمود کی سربراہی میں ایک جائزہ کمیٹی تشکیل دی گئی ہے جوآئینی آپشنز کاجائزہ لے رہی ہےاوراس کی رپورٹ کی بنیاد پرکسی بھی وقت اسمبلیاں تحلیل کرنے کی حتمی تاریخ دی جاسکتی ہے۔پنجاب اسمبلی سے مستعفی ہونے کے اعلان پرعمران خان کے اپنے ہی جماعت کے ارکان مخالفت میں سامنے آرہے ہیں اور وہ انہیں استعفوں یااسمبلیوں کی تحلیل کی بجائے ایوانوں میں رہ کرمقابلہ کرنے کامشورہ دے رہےہیں ، دوسری طرف پنجاب اسمبلی کوٹوٹنے سے بچانے کے لیے ن لیگ اورپیپلزپارٹی پرمشتمل صوبائی اپوزیشن نے بھی عملی اقدامات شروع کردئیے ہیں اورلیگی ارکان پنجاب اسمبلی نے وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پردستخط کردئیےہیں جوکسی وقت بھی جمع کرائی جاسکتی ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے حکمت عملی پرمشاورت کاعمل تیزی سے جاری ہے،پیپلزپارٹی اورن لیگ کے صوبائی رہنمائوں کادعویٰ ہے کہ ان کی تیاری ہرطرح سے مکمل ہے اوراسمبلی کوتحلیل ہونے سے بچانے کے لیے ہرآپشن استعمال کیاجائے گاان کایہ بھی دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کی صوبائی پارلیمانی پارٹی ٹوٹ چکی ہے اوراس کے ارکان رابطے میں ہیں ،پی ٹی آئی کے اقدامات کو روکنے کے سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف اورسابق صدر آصف علی زرداری کاٹیلی فونک رابطہ بھی خاصی اہمیت اختیار کرگیاہے جس میں پنجاب میں حکومت کی تبدیلی سمیت تمام آپشنز پرغور کیاگیاہے ،وزیراعظم کے ترجمان عطاء اللہ تارڑ کاکہناہے کہ عوامی مینڈیٹ کوکسی صورت متاثرنہیں ہونے دیاجائے گااورپنجاب اسمبلی آئینی مدت ہرصورت میں پوری کی جائے گی ، خیبرپختونخوا اسمبلی کی تحلیل کے معاملے پرمشاورت کے لیے وزیراعلیٰ محمود خان نے پارٹی ایم پی ایز کومشاورت کے لیے طلب کرلیاہے ۔عمران خان نے7ماہ قبل اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش ہوتے ہی عام انتخابات کے لیے اپنالائحہ عمل تیارکرلیاتھااوانہیں یقین تھاکہ وہ دوتہائی اکثریت کے ساتھ اسمبلیوں میں واپس آکر اپنے اقتدار کودوام بخشیں گے۔ اسی لیے انہوں نے اپوزیشن کی طرف سے اپنے خلاف پیش کی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک پرووٹنگ کرانے کی بجائے غیرملکی سازش کے مفروضے کے تحت یہ تحریک مسترد کراکے فوری طور پرقومی اسمبلی تحلیل کرنے کی ایڈوائس صدر علوی کوبھجوائی جنہوں نے اس پرفوری عمل کردیامگر سپریم کورٹ نے اس سارے عمل کوغیرآئینی قرار دے کراسمبلی اورحکومت بحال کردی جس کے فوراً بعد عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد منظور ہوئی اور انہیں آئینی طریقے سے اقتدار سے بے دخل کردیاگیا تھا،عمران خان نے اقتدار سے باہرآتے ہی احتجاجی جلسوں میں قبل ازوقت ا نتخابات کامطالبہ پوری شدومد کے ساتھ اُٹھایااورفوری انتخابات یقینی بنانے کے لیے پی ٹی آئی کے ارکان قومی اسمبلی کے استعفےاسپیکرکوارسال کردئیے۔انہیں یقین تھاکہ حکومت اورالیکشن کمیشن کے لیے اتنی زیادہ نشستوں پرضمنی انتخابات کراناممکن نہیں ہوگااور وہ فوری طور پرعام انتخابات کرانے پرمجبور ہوجائے گی لیکن اتحادی حکومت نے تمام پی ٹی آئی ارکان کے استعفے ایک ساتھ منظور نہ کرکے عمران خان کی یہ کوشش اورخواہش ناکام بنادی ۔اس طرح عمرا ن خان کے ہاتھ سے وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک لانے کاآپشن بھی نکل گیا،پنجاب اسمبلی اورقومی اسمبلی کے ضمنی انتخابات میں بھرپور کامیابی کے بعد بھی قبل ازوقت انتخابات کے انعقاد کامطالبہ پورانہ ہوسکاتوانہوں نے لاہور سے لانگ مارچ شروع کردیاجس کے مقاصد میں قبل ازوقت انتخابا ت اورمرضی کاآرمی چیف لاناشامل تھے مگر یہ دونوں مقاصد بھی حاصل نہ ہوسکے توانہوں نے موجودہ سسٹم کاحصہ نہ رہنے اور کے پی کے اورپنجاب کی اسمبلیاں توڑنے کےفیصلے کااعلان کردیا،اگر عمران خان اپنی حکومت والے ان دونوں صوبوں کی اسمبلیاں توڑ بھی دیں تویہ اقدام فوری طور پرعدالتوں میں چیلنج ہوجائے گااور تحلیل کی جانے والی اسمبلیاں سپریم کورٹ کے قومی اسمبلی سے متعلق 1993کے فیصلے کی روشنی میں اس جواز کے تحت بحال کی جاسکتی ہیں کہ اسمبلیوں کی آئینی میعاد پوراہونےمیںچند ماہ کاعرصہ رہ گیاہے اس لیے انہیں اپنی مدت پوری کرنے دی جائے اگر دونوں یاایک صوبے میں وفاقی حکومت کی طرف سے گورنرراج نافذ کیاگیاتو وہ بھی عدالت میں چیلنج ہوسکتاہے تاہم اس اقدام سے اسمبلیوں کی فوری تحلیل رک جائے گی ۔ایک رائے یہ بھی ہے کہ عمران خان ہر گز اسمبلیاں نہیں توڑیں گے کیوں کہ انہیں حکومت میں ہیلی کاپٹر کے استعمال اور بھرپور پروٹوکول جیسی جو سہولتیں میسر ہیں وہ انہیں ہر گز کھونا نہیں چاہیں گے اور اسمبلیاں توڑنے کے معاملے پر بھی یو ٹرن لے لیں گے ۔سیاسی فریقوں باالخصوص عمران خان کویاد رکھناچاہیے کہ جمہوری عمل کو عدم استحکام کاشکار کرنے سے ملک میں سیاسی انتشار مزید بڑھے گااورکمزورمعیشت کاحامل اورقرضوں کے بوجھ تلے دباہواملک اس کامتحمل نہیں ہوسکتاعمران خان ذاتی اورپارٹی مفاد سے بالاتر ہوکرسوچیں اورسیاسی افراتفری پیداکرنے کی بجائے اسمبلیوں کی آئینی مدت پوری کرنے کی روایت آگے بڑھانےمیں اپناکردار اداکریں ،مسلسل منفی سیاسی رویہ تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ خود عمران خان کی سیاسی تنزلی کاباعث بھی بن سکتاہے اورآزادکشمیر میں بلدیاتی انتخابات میں تحریک انصاف کے مایوس کن نتائج سے ان کی آنکھیں کھل جانی چاہئیں۔

تحریر(نعیم اللہ خان)