بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

انتشار کی سیاست انتخابی منزل دور کردے گی

انتشار کی سیاست انتخابی منزل دور کردے گی
پاکستان تحریک انصاف نے پنجاب میں محسن نقوی کے نگران وزیراعلیٰ کے طور پر تقرر کو الیکشن کمیشن کی طرف سے جمہوریت کےساتھ مذاق قرار دیتے ہوئے کہا ہےکہ اب سڑکوں پر جدوجہد کے سوا کوئی راستہ باقی نہیں بچا جبکہ پی ٹی آئی کے اتحادی اور سبکدوش ہونے والے وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی نے محسن نقوی کو متنازعہ قرار دیتے ہوئے عدالت عظمیٰ میں جانے کا اعلان کیا ہے، ایسا نظر آرہا ہے کہ عمران خان پنجاب میں آئینی طریقے سے ہونے والے نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کو متنازعہ بنا کر ہنگامہ آرائی اور محاذ آرائی کی طرف سے جانا چارہےہیں، اگر ملک میں پہلے سے موجود سیاسی تقسیم اور عدم استحکام میں اضافہ ہوا تو عام انتخابات کی منزل دور بھی ہو سکتی ہے جس کی مکمل ذمہ داری پی ٹی آئی پر عائد ہو گی۔ الیکشن کمیشن کے اجلاس میں مشاورت کے بعد محسن رضا نقوی کے نام پر اتفاق کیا گیا، اس سے پہلے قائدین کی سطح پر حکومت اور اپوزیشن کی طرف سے دیئے جانے والے نام زیر غور آئے جن پر کوئی اتفاق رائے نہ ہوا بعد ازاں پارلیمانی کمیٹی میں بھی مختلف وجوہات کی بنا پر کوئی مفاہمت نہ ہو سکی جس کے بعد آئین کی روسے یہ معاملہ الیکشن کمیشن کے پاس چلا گیا۔ چونکہ نگران وزیراعلیٰ کا تقرر آئین اور قانون کے مطابق ہوا اس لئے اس معاملے کو متنازعہ اور سیاسی ایشو بنانے بنانے کی گنجائش بالکل نہیں تھی۔اگر صوبائی انتخابات آئینی مدت کے دوران ہوتے ہیں تو اتنے کم وقت میں نگران وزیراعلیٰ کے تقرر کے معاملے کو عدالت میں لے جانا خلاف عقل تصور ہو گا لیکن پی ٹی آئی نے محسن نقوی کا نام فائنل ہونے سے پہلے ہی یہ پراپیگنڈہ شروع کر دیا تھا کہ محسن نقوی کو پنجاب میں الیکشن رکوانے یا دھاندلی کے ذریعے تحریک انصاف کا راستہ روکنے کا ٹاسک دیا گیا ہے، حالانہ کہ (ن) لیگ کی طرف سے امیدوار نامزد کئے جانے والے محسن نقوی بیک وقت ایک طرف پی ٹی آئی کے ناگزیر اتحادی گجرات کے چوہدری برادران کے قریب ترین عزیز اور ان کے اثرورسو خ کے حلقے میں شامل ہیں تو دوسری طرف سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ بھی ان کے بہت اچھے مراسم ہیں۔ا س کے علاوہ میڈیا کے ساتھ ان کی وابستگی انہیں صوبے میں آزادانہ اور شفاف انتخابات کے انعقاد کے لئے متحرک سیاسی قوتوں کو افہام و تفہیم پر مائل کرنے کی اضافی صلاحیت عطاء کرتی ہےلیکن پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن کی طرف سے ان کا نام سامنے آجانے کے چند گھنٹوں بعد ہی اس فیصلے کو باقاعدہ طور پر نہ صرف مسترد کردیا بلکہ پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے یہاں تک کہا کہ الیکشن کمیشن نے ان کے ازلی دشمن کو نگران وزیراعلیٰ تعینات کر دیا ہے۔پی ٹی آئی کے رہنما فواد چوہدری کہہ رہے ہیں کہ کارکنان تیاری کریں عمران خان کی قیادت میں ایک بڑی مہم چلائی جائے گی جبکہ مرکزی سیکرٹری جنرل اسد عمر نے اس تعیناتی کو آئین کے ساتھ مذاق قرار دیا ہے ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی اس تقرر کو عدالت میں چیلنج کر کے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے۔پی ٹی آئی کے نزدیک کے پی کے اور پنجاب کی اسمبلیوں کو تحلیل کرنے کا مقصد وفاقی حکومت پر دبائو ڈال کر نئے عام انتخابات کو یقینی بنانا تھا لیکن یہ مقصد تو حاصل نہیں ہوا۔ اب احتجاجی سیاست کرنا ، ایک مرتبہ پھر سیاسی معاملے کو عدالتوں میں گھسیٹنا اورجارحانہ رویہ اختیار کر کے افراتفری کا ماحول پیدا کرنا ملک میں پہلے سے موجود سیاسی بے یقینی کو مزید بڑھانے کی خواہش کے علاوہ کوئی معنی نہیں رکھتا۔اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے عمران خان اور ان کی جماعت کا واحد مقصد ہر حال میں اقتدار میں واپس آنا رہا ہے خواہ ملک و قوم کو اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔اگر یہ معاملہ عدالتوں میں چلا گیا تو اس کا فیصلہ آنے کے لئے طویل انتظار کی ضرورت ہو گی ۔جبکہ سیاسی حلقوں میں یہ افواہیں پہلے ہی گردش کررہی ہیںکہ گھمبیر ماشی صورتحال اور نازک سیاسی حالات کی وجہ سے ہوسکتا ہے کہ عام انتخابات مقرر ہ وقت پر نہ ہوں اور صوبائی انتخابات میں آگے چلے جائیں ۔عمران خان نے یہ پروا کئے بغیر کہ اسمبلیاں توڑنے سے ملک میں کس قدر سیاسی عدم استحکام آئے گا اور اس کے ملکی معیشت کو سنبھالا دینے کے لئے کی جانے والی کوششوں پر کس قدر منفی اثرات مرتب ہوں گے اپنے فیصلے پر عملدرآمد کیا حالانکہ ان کے اتحادی وزیراعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی اور دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کے ارکان کی اکثریت اسمبلیوں کی تحلیل کی مخالف تھی ۔اس وقت مرکز اور چاروں صوبوں میں کسی جگہ پر عمران خان کی حکومت موجود نہیں ہےحالانکہ وہ اگر چاہتے تو مزید چھ ماہ تک پنجاب اور خیبر پختونخوا میں پانی پارٹی کا اقتدار قائم رکھ سکتے تھے ۔عمران خان کو یہ توقع تھی کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد وفاقی حکومت پر اس قدر دبائو آئے گا کہ وفاقی حکومت حالات سے خوفزدہ ہو کر مستعفی ہو جائے گی اور ملک میں ازسر نو انتخابات کا اعلان کر دیا جائے گا لیکن یہ چال الٹی ثابت ہوئی اور اب پی ٹی آئی نہ صرف دونوں صوبوں میں اپنے اقتدار سے محروم ہو گئی ہے بلکہ قومی اسمبلی کے اپنے نصف ارکان کی نشستوں سے بھی محروم ہو چکی ہے اور اب اپنے باقی ماندہ ارکان قومی اسمبلی کے استعفے رکوانے کے لئے پارلیمنٹ ، سپیکر ہائوس اور الیکشن کمیشن آفس کے درمیان دوڑیں لگا رہی ہے ۔ سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویزاشرف نے جولائی میں پی ٹی آئی کے گیارہ ارکان قومی اسمبلی کے استعفے منظور کر کے پی ٹی آئی کو مشکل صورتحال سے دو چار کر دیا تھا اور پھر گزشتہ ہفتے کے د وران دو مرتبہ پینتیس ، پینتیس ارکان کے استعفے عین اس وقت منظور کر لئے گئے جب عمران خان نے قومی اسمبلی میں واپس آنے کا عندیہ دیا تھا تاکہ پی ٹی آئی کا اپوزیشن لیڈر بنوا کر آئندہ نگران وفاقی حکومت کے قیام میں اپنے کردار کی راہ ہموار کی جاسکے،اب پی ٹی آئی کے پینتالیس ارکان نے استعفے دینے کے لئے پارلیمنٹ ہائوس کا رخ کیا تو اس کے دروازے بند ملے ، سپیکر ہائوس جانے کی ناکام کوشش کے بعد متعلقہ ارکان الیکشن کمیشن پہنچے اور الیکشن کمیشن حکام سے تحریری درخواست کی کہ وہ اپنے استعفے واپس لے رہے ہیں لہذا اگر سپیکراستعفے منظور کریں تو ان ارکان کو ڈی نوٹیفائی نہ کیا جائے ۔پی ٹی آئی کی اب سرتوڑ کوشش ہے کہ وہ کسی طرح قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ حاصل کر کے قومی سطح کی گیم میں واپس آئے ،حالانکہ اقتدار سے نکالے جانے کے بعد عمران خان اسی اسمبلی کو سازش کی پیداوار کہتے رہے جس نے انہیں وزیراعظم منتخب کیا تھا۔وفاقی حکومت کی طرف سے گزشتہ چھ سات ماہ کے دوران پی ٹی آئی سے بار بار درخواست کی جاتی رہی کہ وہ قومی اسمبلی میں واپس آکر اپنا قومی کردار ادا کرے مگر عمران خان کے سر پرایک ہی دھند سوار تھی کہ فوری طور پر قبل ازوقت انتخابات کرائے جائیں ۔حالیہ مہینوں کے دوران انہیں اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ ان کا مقررہ مدت سے پہلے عام انتخابات کروانے کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا ۔اب جب کہ وہ دونوں صوبوں میں اپنی حکومتوں سےبھی از خود محروم ہو گئے ہیں تو انہیں اچانک یہ احساس ہوا ہے کہ قومی اسمبلی کے باہر راہ کر وہ ایک بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ عمران خان انتشار اور محاذ آرائی کی طرف نہ جائیں کیونکہ ان کے اس رویے سے کی وجہ سے نہ صرف ملک و قوم بلکہ خود ان کو اور ان کی جماعت کو بہت زیادہ نقصان ہو چکا ہے۔