facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

وزیر اعظم عمران خان کے حکم پراسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے مالیاتی سکینڈل کی تحقیقات شروع 

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک)وزیراعظم عمران خان کی طرف سے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کےاجلاس میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن میں مبینہ طور پر اسٹیشنری کی جعلی خریداری کے مالیاتی سکنیڈل کے انکشاف کا نوٹس لئے جانے کے بعد بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع ہوگئی۔

جمعرات کو ذرائع کے مطابق اعلیٰ حکام نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی اجلاس میں مالی سال 2019-20 کی پیش کی جانے والی رپورٹ میں کئے جانے والےمالی بے ضبطگیوں  کی روشنی میں اس  کا تمام پہلوؤں سے جائزہ لینا شروع کردیا ہےاور چند روز میں ابتدائی رپورٹ وزیراعظم آفس کوبجھوائی جائے گی ۔

گزشتہ روز پی اے سی کے اجلاس میں یہ مالیاتی سکینڈل سامنے آیاتھا۔ واضح رہے کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نا صرف بیروکریسی کے امور کے معاملات ذمہ دار ہوتاہے بلکہ اس ڈویژن  افسران اہم انتظامی عہدوں پر کام کرتے ہیں۔

یہ ڈویژن تعیناتی تبادلوں، ترقی اور تربیت کے معاملات دیکھنے کے علاوہ خصوصی انتظامی مسائل کے حل کے لیے کیس اسٹیڈیز، ادارہ جاتی جائزے کرتا ہے اور متعدد ڈویژنز اور اس سے منسلک شعبوں کے افعال اور طریقہ کار واضح کرتا ہے۔اس کے علاوہ یہ ڈویژن وفاقی حکومت کے دیگر تمام دفاتر، محکموں اور خودمختار تنظیموں کو بھی دیکھتا ہے۔

پی ایس اے میں پیش کردہ آڈٹ رپورٹ کے مطابق اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سینیئر عہدیداروں نے ’اسٹور کے سامان اور اسٹیشنری کی جعلی خریداری سے پیسے بٹورے جس سے قومی خزانے کو 4 کروڑ 80 لاکھ روپے کا نقصان پہنچا۔

رپورٹ میں عمومی مالیاتی قواعد کا حوالہ دیا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’عوامی خدمت کی عین ضروریات کے مطابق سب سے رعایتی طریقے سے خریداری کی جانی چاہیے‘۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے مالی سال 17-2016 اور 18-2017 میں اسٹیشنری، اسٹور کے سامان اور دیگر اشیا کی خریداری کے لیے اوپن ٹینڈرز جاری کیے، سال 2019-2016 کے دوران 4 کروڑ 80 لاکھ روپے کے اخراجات کیے گئے۔

آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ خریداری پرچیز کمیٹی کی منظوری کے بغیر کی گئی اس سلسلے میں اسٹیبلشمنٹ ڈویژن نے ایک اندرونی انکوائری کی لیکن اس کے نتائج سے آڈٹ ٹیمز کو آگاہ نہیں کیا گیا۔

ڈویژن نے سال 2017 میں 2 کروڑ 3 لاکھ روپے، سال 2018 میں 2 کروڑ 15 لاکھ اور سال 2019 میں 60 لاکھ روپے اسٹیشنری پر خرچ کیے۔

ایک گزشتہ آڈٹ رپورٹ میں کہا گیا کہ مالی سال 19-2018 کے دوران اسٹیشنری پر اخراجات میں واضح کمی آئی۔

آڈٹ میں قرار دیا گیا کہ عمومی مالیاتی قواعد کی سنگین خلاف ورزی کی گئی، آڈٹ کا اعتراض اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے اس وقت کے سیکریٹری اعجاز منیر کی دائر کردہ شکایت پر مبنی تھا تاہم ڈویژن کے سیکشن آفیسر جنہوں نے یہ معاملہ اٹھایا تھا انہیں کہیں اور تعینات کردیا گیا۔

اس کے علاوہ چیف فنانشنل افسر محمد افضل جنہوں نے اس مالی بے ضابطگی کی تصدیق اور سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ پر انکوائری کے لیے زور دیا تھا ان کا بھی تبادلہ کردیا گیا۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے سیکریٹری افضل لطیف نے پی اے سی کو بتایا کہ اندرونی انکوائری مکمل ہوگئی اور رپورٹ وزیراعظم کو پیش کی جاچکی ہے، چونکہ اس میں ’ایک بہت سینیئر‘ افسر ملوث ہے اس لیے معاملہ وزیراعظم کو بھجوایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم نے کیس کو دیکھا اور ملوث افسران کے خلاف کارروائی کرنے سے قبل فرانزیک آڈٹ کی ہدایت کی۔

مزید پڑھیں: ایف بی آر کی بہترین کارگردگی کی وجہ سے عوام کو ریلیف دینے میں کامیاب ہوئے، وزیراعظم عمران خان