facebook-domain-verification" content="ck1ojg2es5iiyqif2wy9qloqe1qs4x

بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

ملک بچانا ہے تو ہنگامی بنیاد پر دریاؤں کا پورا نام پاک فوج کے حوالے کر دیا جائے،حافظ ظہورالحسن ڈاہر

اسلام آباد(نیوز ڈیسک )سندھ طاس واٹر کونسل پاکستان کے چیئر مین ، ورلڈ واٹر اسمبلی کے چیف کوآرڈی نیٹر حافظ ظہورالحسن ڈاہرنے کہا ہے کہ چولستان کے علاقوں میں پانی کے تالاب اور ٹو بے خشک ہو چکے ہیں ۔ وہاں ایک گھونٹ پانی میسر نہیں۔ جہاں پانی نہیں وہاں زندگی نہیں ۔ اب ان علاقوں میں پانی کی عدم دستیابی کے باعث انسانوں ، حیوانات ،جنگلی جانوروں اور چرند پرند کی زندگی خطرے میں ہے 10 ہزار سے زائدمویشی ہلاک ۔

جگہ جگہ ان کے مردہ ڈھانچے بکھرے پڑے ہیں ۔ 16 ہزار روہیلے مال مویشی لے کرنکل مکانی کر گئے ہیں ۔ 12لاکھ سے زائد متاثرین بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یارخاں کے چولستانی علاقوں میں تا حال خطرات کے نرغے میں ہیں ان کی زندگی بچانے کیلئے ہنگامی بنیاد پر کوئی مؤثر لائحہ عمل طے کیا جائے ورنہ بھوک اور پیاس کا ایسا طوفان آنے والا ہے جس سےوسیع پیمانہ پر ہلاکتوں کا خطرہ لاحق ہے ۔ حال ہی میں گلیشیرپگھلنے سے دریاؤں اورنہروں میں جو پانی آ رہا ہے ۔سدھنائی ، بہالپور کینال ،پنجندعباسیہ لنک کینال اور سلیمانکی سے نکلنے والی تمام نہروں میں دوگنا پانی بڑ ھایا جائے ۔ اور ایمر جنسی کے تحت 70 فیصد یہ پانی پینے کیلے مختص کیا جائے ۔ اب یہ سارا پانی وڈیرے اپنی زرعی زمینوں کیلئے استعمال میں لا رہے ہیں۔

چولستان کےقحط زدگان کو یہ پانی نہیں مل رہا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز چولستان کے اندر کا دورہ کریں۔اقوام متحد ہ اور یونیسیف کی ٹیم ہی آگے آئے اور بھارت سے کہا جائے کہ وہ انسانی بقاء اور زندگی بچانے کیلئے دریاستلج میں 50 ہزار کیوسک پینے کیلئے پانی فراہم کرے۔ تا کہ بہاولپور، بہاولنگر اور رحیم یار خان کے چولستان کے علاقہ میں دو لاکھ سے زائد انسانوں حیوانات اور جنگلی جانوروں کی زندگی بچائی جائے ۔دریائے سندھ سے نکالی جانیوالی کچھی کینال کے ذریعے بلوچستان کے قحط زدہ علاقوں میں ہی پینے کیلئے پانی فراہم کیا جائے وہاں بھی پینے کیلئے دستیاب نہ ہونے کے باعث 40 گاؤں موت کی دہلیز پر کھڑے ہیں ۔ بعض علاقوں میں ٹینکروں کے ذریعے پانی فراہم کیا جا رہا ہے۔ لوگ زندگی بچانے کیلئے مہنگے داموں پانی خرید کر پیاس بجھا رہے ہیں ۔

صوبہ سندھ کے وز یراعلیٰ سید مرادعلی شاہ فی الفورتھر کا دورہ کریں۔ وہاں بھی پیاس اور بھوک سے انسانی ہلاکتوں کا سلسلہ شروع ہونے والا ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے قحط زدہ علاقوں کا تفصیلی مطالعہ کرنے کے بعد ایک خصوصی نشست سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ کسی دورمیں یہ خطہ منہ زور دریاؤں کی دھرتی تھی۔ یونان اور یورپ میں وادی سندھ کے چرچے تھے دنیا بھرکے تاجرطرح طرح کی اجناس خریدنے کیلئے یہاں آتے اور امیر کبیر ہو کر واپس لوٹتے۔ یورپ مشرق وسطی اور عربوں کیلئے یہ سونے کی منڈی تھا۔

عہد قدیم سے اس خطہ میں سندھ طاس کا یہ مثالی دریائی نظام قائم ہے ۔ کشمیر سے دیبل کے ساحل تک پٹی انتہائی زرخیز تھی ۔ دریائے سندھ اوران کی دیگر پانچ شاخوں دریائے چناب جہلم ستلج اور بیاس کے میٹھے پانیوں نے ان کو مز ید ز رخیز بنادیا۔تقسیم ہند کے موقع پر قائد اعظم محمد علی جناح ،وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور جواہر لال نہرو کے مابین ہی یہ عہدطے پایا گیا تھا کہ سندھ طاس دنیا کا یہ مثالی آبی نظام قائم رہے گا۔ اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی ۔

انٹرنیشنل لاء کے تحت جس طرح دریا بہہ رہے ہیں اسی طرح بہتے رہیں گے ۔ خواہ ہیڈ ورکس کسی ملک میں واقع ہوں گے۔ بہتے دریاؤں کا یہ مثالی آبی نظام رہتی دنیا تک قائم رہے گا۔ صرف مشرقی پنجاب کی آبیاری کے لئے دریائے ستلج، بیاس اور راوی سے چھ فیصد پانی حاصل کیا جائے گا لیکن بھارت اچا نک اس عہد سے منحرف ہو گیا۔ اور یکم اپریل1948ء کو پاکستان کی طرف بہنے والی تمام شہروں کا پانی بند کر دیا۔ یہ مسلمانوں کے خلاف ہندو اورفرنگی کا بہت بڑ افراد اورظلم عظیم تھا۔ اس دور میں پاکستان کے صدر مملکت محمد ایوب خاں نے اس ضمن میں 10 یورپین ممالک کا طوفانی دورہ کیا۔ لیکن اس پلان کا مقابلہ نہ کر سکے

پاکستان نے بھارت کے اس بھیا نک عمل کے خلاف عالمی عدالت انصاف میں جانے کا فیصلہ کیا تھا تو امریکہ آڑے آ گیا اس نے پاکستان کے حکمرانوں کو مجبور کر دیا کہ یہ معاملہ ورلڈ بینک کے سپرد کر دیا جائےلہٰذا 19 ستمبر 1960 ء کو پاکستان اور بھارت کے مابین دریائوں کی تقسیم کا معاہدہ طے پایا گیا۔ جس کو سندھ طاس معاہدہ کہاجاتا ہے 2 6سال سے اس معاہدہ کے ساتھ کیا ہوا۔ بھارت نے کیا پایا اور پاکستان نے کیا کھویا۔وہ 38 سال سے کراچی سے خیبر تک چیخ چیخ کر یہ کہہ رہا ہے کہ بھارت سندھ طاس معاہدہ کے کسی ایک آرٹیکل پر بھی عمل نہیں کر رہا ہے ۔ اب وہ صرف اور صرف مذاکرات کی آڑمیں پاکستان کے دریا اپنی حدود میں بند کرنے کے منصوبوں پرعمل پیرا ہے۔

سندھ طاس آبی تنازعات سے متعلق آج بھی نئی دہلی میں پاکستان اور بھارت کے مابین جو مذاکرات ہورہے ہیں اس ضمن میں پاکستان کو ایک ٹکے کا فائدہ حاصل نہیں ہوگا۔ آئندہ اس ضمن میں ایک ہزار بار مذاکرات ہو جائیں قطعاً کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوگا ۔ بھارت ان مذاکرات کی آڑ میں 2030 تک دریائے ستلج، بیاس اور راوی کی طرح دریائے چناب جہلم اور سندھ سے ہی پاکستان کومحروم کر دے گا۔

ملک بچانا ہے تو ہنگامی بنیاد پر دریاؤں کا پورا نام پاک فوج کے حوالے کر دیا جائے۔ ان دنوں بھارت سیلاب اور پاکستان قحط سے دوچار ہے۔ منگلا اور تربیلا ڈیم دونوں ڈیڈ لیول پر ہیں۔ صرف پانی روک کر زندہ رکھا جا رہاہے۔