بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

حکومت کاسرپرائز،پی ٹی آئی کارکن بھاگنے پرمجبور

اسلام آباد(طارق محمودسمیر) پاکستان تحریک انصاف کے بڑی تعدادمیں کارکنوں نے اسلام آبادکے ڈی چوک پرپہنچ کر نہ صرف حکومت کو حیران وپریشان کیابلکہ پی ٹی آئی کی قیادت کے لیے بھی یہ ایک سرپرائزثابت ہوا۔حکومت نے حکمت عملی تبدیل کرتے ہوئے آپریشن کیا اورمظاہرین کوبھاگنے پرمجبورکردیا۔اس احتجاج میں رینجرزاورپولیس اہلکاروں کی جانیں جاناایک انتہائی افسوسناک امرہے اس طرح کی تحریکوں میں تشددکا پہلوکئی حوالوں سے خطرناک ثابت ہوتاہے۔بشریٰ بی بی نے عمران خان کو ویٹوکرکے سنگ جانی کے بجائے ڈی چوک آنے کافیصلہ کیا تھا،عمران خان کے بغیر یہ پہلاموقع ہے کہ کارکنان ڈی چوک پہنچے کیونکہ جب 25مئی 2022کو عمران خان صوابی سے ریلی لے کرنکلے تھے تو بلیوایریاسینٹورس کے مقام پر ہی اس وقت کے وزیرداخلہ راناثناء اللہ کی جامع اور کامیاب حکمت عملی کے نتیجے میں وہ آگے نہیں بڑھ سکے تھے اور پولیس نے انہیں واپسی پرمجبورکردیاتھا، پانچ اکتوبر کااحتجاج ہویا موجودہ احتجاج انتظامیہ کی حکمت عملی کامیاب نہیں ہوئی،یہ بات سمجھ سے بالاترہے کہ اٹک کے ڈی پی او یہ دعویٰ کرتے رہے کہ اٹک ریڈلائن ہے اور مظاہرین کو اٹک سے آگے نہیں آنے دیاجائے گا،ڈی پی او اٹک نے نہ صرف اپنے ایک اہلکارکی جان گنوائی بلکہ وہ مظاہرین کو روکنے یا ان کی تعدادکم کرنے میں بھی ناکام رہے دوسری جانب وزیرداخلہ محسن نقوی جو علی امین گنڈاپوراور بیرسٹرگوہرکے ساتھ رابطے میں تھے ،یہ تجویزدی کہ سنگ جانی میں دھرنادے دیاجائے ،بیرسٹرسیف کے مطابق عمران خان اس بات پر مان گئے تھے لیکن بشریٰ بی بی نے اس تجویزکوویٹوکردیا اور وہ کارکنوںکے ہمراہ ڈی چوک پہنچنے میںکامیاب ہوئیں،اب سارا دن سکیورٹی فورسزاورمظاہرین کے درمیان آنکھ مچولی ،شیلنگ اور ربڑکی گولیاں چلتی رہیں،رینجرزکے ساتھ سیلفیاں بھی بنتی رہیں پھررینجرزنے مظاہرین سے ڈی چوک خالی بھی کرایا،علی امین گنڈاپوراس احتجاج میں لیڈرتو بنے لیکن کارکنوں نے انہیں تنہا نہیں چھوڑاتاکہ وہ کہیں چکمہ دے کر کے پی ہاوس نہ چلے جائیں،ذرائع کے مطابق حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کی یہ کوشش ہے کہ کسی بھی طرح کوئی جان نہ جائے تاکہ پی ٹی آئی کو لاشیں نہ ملیں، یہی وجہ ہے کہ پولیس اوررینجرزکوجوابی فائرکرنے کی اجازت نہیں دی گئی تھی،اگر مشتعل مظاہرین اشتعال دلارہے تھے اور ان کے پاس آنسوگیس کے شیل اور حکومتی وزراء کے مطابق اسلحہ بھی تھاتو پھر دوطرفہ فائرنگ سے جانیں ضائع ہونے کاخدشہ تھا،بہرحال اس احتجاج میں افغان باشندوں کی شرکت کے بعض شواہد بھی حکومت پیش کررہی ہے غیرملکی باشندوں کی پاکستان کی سیاست میں دخل اندازی درست نہیں ،اب بھی وقت ہے کہ دونوں فریقین مذاکرات راستہ نکالیں دیکھاجائیں تو اس وقت مولانافضل الرحمان ایسی شخصیت ہیں جو دونوں فریقوں کومذاکرات کی میزپر لاسکتے ہیں۔