بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

لانگ مارچ : ”آشیر باد“ سے ”اظہار بیزاری“ تک!

پاکستانی سماج سیاسی اعتبار سے اس قدر بانجھ ہو چکا ہے کہ یہاں انقلاب ہی نہیں بلکہ انقلاب برپا کرنے کے لیے اختیار کیے جانے والا ہر ممکن سیاسی عمل بھی ”سطحیت“ اختیار کر گیا ہے۔ سیاسی تاریخ کا مطالعہ ہم پر یہ واضح کرتا ہے کہ احتجاج کے کئی رنگ اور ڈھنگ ہوتے ہیں لیکن اس سے پہلے مکالمہ ہوتا ہے اور اس کی ناکامی کے بعد الٹی میٹم دیا جاتا ہے، اگر اس سے بھی بات نہ بنے تو احتجاج شروع کیا جاتا ہے اور اس کی ابتدا ء عموماً ہڑتال جیسے عمل سے ہوتی ہے۔

لیکن جہاں تک دھرنے اور لانگ مارچ کا تعلق ہے تو یہ کسی بھی احتجاج کے آخری حربے ہوتے ہیں جو اپنائے جاتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستانی سماج میں سیاسی کلچر اس قدر بگاڑ کا شکار ہو گیا ہے کہ یہاں بات منوانے کے لیے مکالمہ کی روایت کو تو کسی صورت اپنایا نہیں جاتا اور رہی بات ہڑتالوں کی تو یہ بھی قصہ پارینہ ہو گئی ہیں۔ ایسا ہے کہ پاکستانی سماج میں اب احتجاج شروع ہی آخری حربے سے ہوتا ہے، یعنی دھرنا یا لانگ مارچ۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی سماج میں ان دنوں سیاسی اصطلاح ”لانگ مارچ“ کی شامت آئی ہوئی ہے۔ پہلے حکومت گرانے کے لیے لانگ مارچ کیے جاتے تھے اب محض ایک مطالبہ کے حق میں لانگ مارچ جیسے انقلابی اقدام اٹھائے جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک لانگ مارچ سابق وزیر اعظم عمران خان کی قیادت میں لاہور سے اسلام آباد کی طرف چلا آ رہا ہے۔

تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان اس وقت ایک لانگ مارچ کی قیادت کر رہے ہیں جس کا مطالبہ صرف یک نکاتی ہے، یعنی فوری انتخابات کے لیے تاریخ کا اعلان کیا جائے۔ لیکن یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان یہ مطالبہ کس سے کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ اپنا لانگ مارچ کس کے خلاف لے کر چلے ہیں؟

اس سوال کے جواب کی تلاش اتنی مشکل نہیں ہے یہ تو خود عمران خان کے بیانیوں سے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ جیسا کہ عمران خان کہتے ہیں کہ ان کے دور اقتدار میں اختیارات ان کی بجائے کسی اور کے پاس تھے، یعنی ان کا اشارہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف ہے۔ اگر ایسا ہے تو کیا موجودہ حکومت بھی اختیارات رکھتی ہے یا نہیں، یا پھر یوں ہے کہ اب بھی اختیارات کا محور اسٹیبلشمنٹ ہی ہے۔ اگر عمران خان کے اس بیان کو تسلیم کیا جائے وہ بے اختیار وزیر اعظم تھے تو پھر وہ ایک ایسی حکومت کے خلاف تو احتجاج کر نہیں کر سکتے جو ان کے نزدیک اختیارات نہیں رکھتی۔

اس کا سیدھا اور سادہ مطلب یہی ہے کہ عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں، اگر ایسا ہے تو وہ یہ واضح کیوں نہیں کرتے کہ وہ اپنی سیاسی جنگ کس کے خلاف لڑ رہے ہیں جبکہ وہ تاثر یہ دیتے ہیں کہ وہ حکومت کے خلاف لانگ مارچ کر رہے ہیں جو ان کے نزدیک چور اور ڈاکوؤں کے پاس ہے۔ جہاں تک لانگ مارچ کو حقیقی آزادی جیسے پرکشش نام دینے کی بات ہے تو اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حقیقی آزادی کے فلسفہ سے خود عمران خان بھی عوام کو آگہی دینے سے قاصر ہیں۔

بہر کیف عمران خان اپنی حکومت کے خاتمہ کے بعد سے جس شدید صدمہ سے دوچار ہیں اس کا تقاضا یہی ہے کہ وہ ہیجانی سیاست کریں کیونکہ وہ اپنے مخالفین کو ہیجان میں مبتلا کر کے ہی سکون پاتے ہوں گے ۔ جہاں تک موجود حکومت کی بات ہے تو وہ بھی بغیر کسی ہوم ورک کے آگے بڑھ رہی ہے جیسا کہ عمران خان پونے چار سال بغیر کسی ہوم ورک کے حکومت کرتے رہے ہیں۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عمران خان جیسے سیاست دان عوام میں اپنی جڑیں کیسے مضبوط کر پاتے ہیں؟

اس ضمن میں یقیناً یہ جواب دیا جائے گا کہ ایسے سیاست دان اسٹیبلشمنٹ کے بغیر اپنا سیاسی قد نہیں بنا سکتے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ پاکستانی سیاست میں حکومت بنانے اور گرانے میں ہی نہیں کہ مقبول لیڈر بنانے میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا کردار ہوتا ہے۔ اس ضمن میں ہماری سیاسی تاریخ میں سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور نواز شریف جیسی مثالیں موجود ہیں۔

اس وقت المیہ یہ ہے کہ پاکستانی سیاست میں تین سے چار بڑی سیاسی جماعتوں کی قیادت ایسی نہیں ہے جو سیاسی فلسفے اور دانشوری کے پیکر میں لتھڑی ہوئی ہو۔ سب سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو لیجیے نواز شریف اور شہباز شریف جو سیاست دان تو ہوسکتے ہیں لیکن وہ کوئی سیاسی فلسفہ یا ویژن دینے کی صلاحیت سے عاری ہیں، ایسی ہی صورتحال پیپلز پارٹی کی قیادت (آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری) کو درپیش ہے جو سیاست اور گیمبلنگ کو ایک ہی عینک سے دیکھتی ہے، جہاں تک جمعیت علما اسلام (ف) اور جماعت اسلامی جیسی مذہبی جماعتوں کا تعلق ہے تو یہ اپنا ایک مخصوص سماجی ویژن تو رکھتے ہیں لیکن ستم یہ ہے کہ پاکستانی عوام کی اکثریت سیاست میں مذہب کی بجائے محض مذہبی ٹچ کو پسند کرتے ہیں اور یہاں ایم کیو ایم کا ذکر تو بنتا ہی نہیں ہے۔

یعنی یہ قوم شارٹ کٹ کو پسند کرتی ہے یہی وجہ ہے کہ ریاست کو ایڈہاک ازم پر چلایا جا رہا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ ملکی سیاست میں ایسی سیاسی قیادت تراشی جائے جو عوامی خدمت کی بجائے پروٹوکول کی بھوک کے ساتھ حکومت میں آنے کا جذبہ رکھتی ہو اور یہی مرض دیگر سیاست دانوں کی طرح عمران خان کو لاحق ہے۔ اگر سیاست کا چلن یہی ہے تو پھر ایسی ہی سیاست جنم لیتی ہے اور ایسے ہی سیاست دان تراشے جاتے ہیں جو ملکی سیاست میں استحکام آنے نہیں دیتے اور اس کا نتیجہ ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈالتا ہے۔

ویسے ایک سوال یہ بھی ہے کہ آخر ملکی سیاست کو اس ڈگر پر کون لاتا ہے اور کیوں کر لاتا ہے اور جس دن اس سوال کا جواب پا لیا گیا تو یقیناً ملکی سیاست میں استحکام بھی آئے گا اور ملکی معیشت بھی بہتر ہوگی، یعنی قومی خوشحالی کو دور شروع ہو گا۔ آخر میں یہ کہ پاکستانی جمہوریت کا دکھ ہی یہی ہے کہ وہ بے ساکھیوں کے سہارے چلتی ہے، یعنی سارا گیم کسی کی آشیر باد سے شروع ہوتا ہے اور اظہار بیزاری پر آ کر ختم ہو جاتا ہے۔