بانی: عبداللہ بٹ      ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

بانی: عبداللہ بٹ

ایڈیٹرانچیف : عاقل جمال بٹ

پانامہ،جنرل (ر)باجوہ ،عمران خان

سابق وزیراعظم عمران خان کی طرف سے سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ پر تنقید اور الزامات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اورانہیں اپنے دور حکومت میں ہر خرابی کے پیچھے اور اقتدار سے بے دخلی اور اس کے بعد کے حالات میں بھی اپنے خلاف مسلسل جنرل باجوہ کے اقدامات اور کارروائیاں کار فرما دکھائی دے رہی ہیں،اسی لئے وہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اب بھی جنرل باجوہ سٹ اپ ان کے خلاف کام کر رہاہے اور اب جنرل (ر) باجوہ کے ساتھیوں کا مقصد انہیں اقتدار میں واپس آنے سے روکنا ہے ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ نے اپنے ایک تازہ انٹرویو میں ایک بار پھرفوج پر غیر جانبدار نہ ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے کہاہے کہ انہیں امید تھی کہ جنرل باجوہ کے بعد فوج نیوٹرل ہو گی مگر وہ ابھی نیوٹرل نہیں ۔ انہوں نے ایک بار پھر مسٹر ایکس اور مسٹر وائے کا نام لے کر کہا کہ انہوں نے ہمارے ایم پی ایز کو دھمکیاں دیں۔سابق وزیراعظم نے جنرل (ر) باجوہ کے خلاف اپنے الزامات دہراتے ہوئے کہا ہے کہ وہ بار بار کہتے تھے کہ معیشت پر زور دیں اور احتساب کو بھول جائیں ، وہ ایسا اس لئے کہتے تھے کہ کیونکہ وہ میرے مخالفین کے ساتھ ملے ہوئے تھے ۔ عمران خان نے ایک بار پھر الزام عائد کیا ہے کہ ایک جنرل باجوہ توسیع سے پہلے والے تھے اور دوسرے توسیع کے بعد ، توسیع سے پہلے والے جنرل باجوہ میڈیا کو بٹھا کر کہتے تھے کہ ان لوگوں نے کتنی چوری کی ہے ۔ عمران خان نے کہا کہ ان کی جے آئی ٹی نے تو نوازشریف کے پانامہ کیس کو ثابت کیا اور اسی وجہ سے اب نوازشریف جنرل (ر) باجوہ کو معاف نہیں کر رہے ۔ عمران خان نے جنرل (ر) باجوہ کو توسیع دینے کو ایک بار پھر اپنی سب سے بڑی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ توسیع کے بعد جنرل باجوہ بدل گئے اور انہوں نے شریفوں سے سمجھوتہ کر لیا اور فیصلہ کر لیا کہ وہ ان کو تمام کرپشن کیسز میں این آر او دے دیں گے ۔ سابق آرمی چیف جنرل (ر)قمر جاوید باجوہ کے دور میں زیرعتاب رہنے والے قومی سیاستدان خاموش ہیں مگر عمران خان مسلسل ان کے خلاف بول رہے ہیں ، جنہوں نے انہیں اقتدار دلوانے اور ان کے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے سب کچھ کیا۔عمران خان کی سہولت کے لئے سیاست ، میڈیا اور اداروں کو مفلوج بنایا گیا ،مقصد صرف یہی تھا کہ 2010میں شروع ہونے والا عمران پراجیکٹ کامیابی سے ہمکنار ہو ۔اس پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانے والے دوسرے ذمہ داروں نے جارحانہ انداز اختیار کیا اور اپنا مستقبل بھی عمران خان سے وابستہ کر لیا اس میں بہت سے سیاستدان بھی مہرے کے طور پر استعمال ہوئے ۔ذرائع ابلاغ کے ذریعے عمران خان کو مسیحا کے طور پر پیش کیا گیا ۔ جنرل باجوہ نے بھی عمران پراجیکٹ کی کامیابی یا ناکامی کو اپنی کامیابی یا ناکامی سمجھ لیا تھا۔ان کے دور میں دیگر سیاسی رہنمائوں اور قوم پرست جماعتوں کے ساتھ اگرچہ زیادتیاں ہوئی مگر وہ عمران خان پر صرف اور صرف مہربان رہے۔اگر ’’غیبی امداد ‘‘عمران خان کے شامل حال نہ ہوتی تو وہ 2018کے عام انتخابات سے پہلے ہی نااہل ہو کر کسی قید خانے میں وقت گزار رہے ہوتے ، یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ جس حد تک عمران خان کے ساتھ گئے اتنا شائد نوازشریف اور شہبازشریف بھی نہ جاسکیں ۔عمران خان کے رویے کی وجہ سے بعض دوست ممالک ناراض ہوئے مگر ان کو منانا جنرل باجوہ نے ہی اپنی ذمہ داری سمجھا ، فنانشل ٹاسک فورس سے لیکر اسمبلی میں اعتماد کا ووٹ دلوانے تک ہر معاملے میں عمران خان کو بھر پور مدد فراہم کی گئی ۔ صدر علوی کچھ عرصہ قبل کراچی میں ایک گفتگو کے دوران اعتراف کر چکے ہیں کہ جنرل (ر) باجوہ نے انتخابات اور سینٹ میں عمران خان کی مدد کی ، صدر کو بعد ازاں اپنے اس انٹرویو کی وضاحت کرنا پڑی تھی ۔عمران خان حکومت کی نااہلی اور ڈیلیور نہ کرنے کی سکت جب سب پر عیاں ہو گئی تو ان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنے کا فیصلہ کیا گیا ، جس کے ساتھ ہی عمران خان کو احساس ہو گیا تھا کہ وہ زیادہ عرصہ اقتدار میں نہیں رہ پائیں گے۔ اسی لئے وہ جنرل باجوہ پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ انہوں نے ان کی پیٹھ میں چھرا گھونپا ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر جنرل باجوہ عمران خان کے خلاف منصوبے بنا رہے تھے تو پھر انہوں نے اپریل 2022 میں انہیں تاحیات توسیع دینے کی پیشکش کیوں کی؟۔عمران خان کی محسن کشی اگرچہ کسی سے پوشیدہ نہیں مگر انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ اقتدار سے محرومی کے بعد اگر ان کے ساتھ نوازشریف وغیرہ جیسا سلوک نہیں کیا گیا تو اس میں بھی جنرل باجوہ کا بڑا ہاتھ ہے۔
عمران خان اقتدار سے بے دخلی کے بعد اپنی مختلف غلطیوں اور غیر قانونی اقدامات کے اعترافات کا سلسلہ بھی جاری رکھے ہوئے ہیں ۔وہ تسلیم کر چکے ہیں کہ انہیں تین سال تک حکومت کی سمجھ ہی نہیں آئی تھی اور جب سمجھ آنا شروع ہوئی تو ان کی حکومت ختم کر دی گئی ۔ اسی طرح وہ گزشتہ انتخابات میں ٹکٹوں کی تقسیم اور پھر اقتدار میں آنے کے بعد وزارتوں کی تقسیم میں بھی غلطیوں کو مان چکے ہیں ۔عمران خان یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ سپریم کورٹ کے جج جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کرنا ان کی غلطی تھی ۔ عمران خان نے تازہ ترین اعتراف وزیر دفاع خواجہ آصف کے خلاف ہرجانہ کیس میں ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج اسلام آباد کی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کے دوران کیا ہے کہ شوکت خانم ہسپتال بورڈ کے ایک رکن کے ذاتی ہائوسنگ پراجیکٹ میں ہسپتال کے تین ملین ڈالر ز کی سرمایہ کاری بورڈ کی منظوری کے بغیر کی گئی ۔عمران خان نے کہا کہ یہ رقم واپس جمع کر ا دی گئی تھی تو معاملہ ختم ہو گیا ، جس پر خواجہ آصف کے وکیل نے کہا کہ معاملہ ختم نہیں بلکہ وہیں سے شروع ہو تا ہے کیونکہ جب یہ سرمایہ کاری کی گئی تو اس وقت ڈالر کا ریٹ 60روپے اور جب یہ رقم واپس ادا کی گئی تو ڈالر کا ریٹ 120روپے تھا۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے اکتوبر 2016میں عمران خان پر شوکت خانم ہسپتال کے پیسے دیگر مقاصد کے لئے استعمال کرنے کاالزام عائد کیا تھا جس پر عمران خان نے ان کے خلاف دس ارب روپے ہرجانے کا دعویٰ دائر کیا تھا۔اس کیس کا فیصلہ عدالت کرے گی مگر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف دن رات چور اور ڈاکو کے نعرے لگاتے نہیں تھکتے۔انہیں عوام نے یہ رقم شوکت خانم ہسپتال کے لئے اپنی زکوٰۃ اور خیرات کے حصے سے دی تھی لیکن اسے کسی منظوری اور قانونی جوازکے بغیر مالی فائدے کے حصول کے لئے ہائوسنگ پراجیکٹ میں استعمال کیا گیا۔